العزیزیہ ، ایونفیلڈ ریفرنسز: جب کرپشن ہی نہیں تو پھر آمدن سے زائد اثاثے کیسے آ گئے؟‘ چیف جسٹس

Nov 27, 2023 | 09:46 AM

JAWAD MALIK

ایک نیوز: اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں قائد مسلم لیگ ن نواز شریف کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت 29 نومبرتک ملتوی کردی۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں نوازشریف کی اپیلوں پر سماعت کی۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنی لیگل ٹیم کے ہمراہ کمرہ عدالت میں پیش ہوگئے، نواز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز روسٹرم پر موجود ہیں۔

سماعت کے آغاز پر نوازشریف کے وکیل امجد پرویز نے کیس کے حقائق سے متعلق بریف نوٹ عدالت میں پیش کر دیا۔

امجد پرویز نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل پر دلائل کا آغاز کر دیا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ یہ جو حقائق آپ نے دیئے ہیں کیا یہ ریفرنس دائری سے پہلے کے ہیں؟

امجد پرویز نے جواب دیا کہ 3 حقائق ریفرنس سے پہلے کے ہیں، باقی بعد کے ہیں، میں اس معاملے پر تین سے چار منٹ میں بات مکمل کر لوں گا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی کے ٹی او آرز کدھر ہیں ان کا دائرہ کار کیا تھا؟ جے آئی ٹی میں چار لوگ تھے؟

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ جے آئی ٹی میں پانچ لوگ تھے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی پر پاناما جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی، 2017 میں سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔

امجد پرویز نے عدالت کو جے آئی ٹی کی تشکیل اور اراکین کے حوالے سے آگاہ کیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا اس کا کوئی سکوپ ہے؟

امجد پرویز نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی تشکیل اپنی معاونت کیلئے دی تھی، جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ 10 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ میں جمع کرائی۔

امجد پرویز نے عدالت کو مزید بتایا کہ جے آئی ٹی رپورٹ 12 والیمز پر مشتمل تھی، جے آئی ٹی کی رپورٹ جمع ہونے کےبعد فریقین کو دلائل کے لیے بلایا گیا، دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد پاناما کیس کا حتمی حکم نامہ 28 جولائی 2017 کو جاری ہوا، حکم نامے کے مطابق نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا۔

جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ نے واضح طور پر کیا احکامات جاری کئے تھے؟ کیا سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کو کوئی احکامات جاری کئے تھے؟

امجد پرویز نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے نیب کو مثبت احکام دیئے کہ نواز شریف کے خلاف ریفرنسز دائر کئے جائیں۔

امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا، نواز شریف، حسن نواز اور حسین نواز کے خلاف سپریم کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

امجد پرویز نے عدالت کو مزید بتایا کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف، حسن نواز اور حسین نواز کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا، سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق نیب نئے شواہد سامنے آنے پر ضمنی ریفرنس بھی دائر کر سکتا ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسارکیا کہ سپریم کورٹ کے احکامات اور ریفرنسز کے دائر ہونے کے درمیان کیا ہوتا رہا؟ کیا تینوں ریفرنسز ایک ہی دن دائر کیے گئے؟۔

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ تینوں ریفرنسز ایک ہی دن دائر کیے گئے تھے،28 جولائی کو سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کا فیصلہ سنایا، نیب ریفرنسز ستمبر میں دائر ہوئے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جب ریفرنسز دائر ہوئے تو کیا نواز شریف ملک میں موجود تھے؟

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ریفرنسز کی دائری کے وقت نواز شریف اپنی بیٹی کے ہمراہ برطانیہ میں تھے،نواز شریف اور مریم نواز برطانیہ سے آکر عدالت میں پیش ہوئے،نواز شریف اور مریم نواز کا کوئی وارنٹ گرفتاری کا آرڈر نہیں تھا،‏ریفرنس دائر ہونے کے بعد اور فرد جرم سے پہلے نواز شریف نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی درخواست دائر کی،‏سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو کہا کہ ہماری کسی بھی ابزرویشن سے اثر انداز ہوئے بغیر فیصلہ دے۔19 اکتوبر 2017 کو ریفرنسز میں ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی.

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا صرف ایون فیلڈ میں فرد جرم ہوئی یا تینوں میں؟ 

وکیل امجد پرویز نے کہا ویسے تو تینوں ریفرنسز میں ایک ہی دن فرد جرم ہوئی، بعد میں ریفرنسز کو الگ الگ چلایا گیا،ہمیں استغاثہ کی طرف سے والیم 10 کی کاپی نہیں دی گئی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ٹرائل کے دوران والیم 10 میں سے کچھ تو دستاویزات ریکارڈ پر آئی ہوں گی؟ 

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ والیم 10 میں سے کوئی دستاویزات ریکارڈ پر نہیں لائی گئیں، جرح کے دوران کچھ سوالات کے جواب ضرور دیئے گئے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ‏کیا ٹرائل کے دوران والیم 10 سے کسی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا۔

جسٹس حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی بھی ایک درخواست دائر کی تھی۔

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ‏احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایک ریفرنس پر فیصلہ سنایا تھا،‏فیصلے کے بعد دیگر ریفرنسز دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست دی تھی،‏اس عدالت میں درخواست زیرسماعت ہونے کے دوران ہی جج محمد بشیر نے کیس سننے سے معذرت کر لی تھی۔

جسٹس حسن اورنگزیب  نے استفسار کیا کہ ‏آپ نے تینوں ریفرنسز ایک ساتھ چلانے کی بھی ایک درخواست دائر کی تھی،‏جج صاحب نے ایک ریفرنس کو جلدی سے چلایا اور دو پر کارروائی کو روک دیا تھا۔

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ نیب نے گواہوں کے بیانات کے علاوہ کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے،نیب نے جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر ریفرنسز دائر کر دیے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب  نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے کہیں اپنا مائنڈ استعمال کرتے ہوئے بھی کچھ کیا؟۔

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ نیب نے نواز شریف کو ایک کال اپ نوٹس بھیجنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا،نیب نے ضمنی ریفرنس میں کچھ مزید شواہد ریکارڈ پر لائے،نیب نے میاں نواز شریف کے قوم سے خطاب کا ٹرانسکرپٹ قبضے میں لیا،نیب نے مریم،حسن اور حسین نواز شریف کے بیانات کا ٹرانسکرپٹ قبضے میں لیا،نیب نے کیلبری فونٹ سے متعلق ایکسپرٹ رابرٹ ریڈلے کا بیان شامل کیا۔

نواز شریف کے وکیل نے ایون فیلڈ ریفرنس میں عائد کی گئی فرد جرم کا متن پڑھ کر سناتےہوئے کہا کہ نواز شریف نے چارج فریم ہونے کے بعد صحت جرم سے انکار کیا،‏احتساب عدالت نے فرد جرم کے بعد نیب سے شہادتیں طلب کر لیں، نیب نے ایک ابتدائی تفتیشی رپورٹ جمع کرائی اور بعد میں ضمنی تفتیشی رپورٹ دی،‏ابتدائی تفتیشی رپورٹ میں صرف سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا۔

وکیل امجد پرویز نے مزید کہا کہ ‏نیب نے ٹی وی انٹرویوز پیش کیے، نواز شریف کی اسمبلی فلور پر کی گئی تقریر کا حوالہ دیا،‏ایک گواہ رابرٹ ریڈلے پیش کیا جو نواز شریف کی حد تک کیس میں متعلقہ گواہ نہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسارکیا کہ کیا نیب نے صرف ڈاکیے کا کام کیا یا خود سے کوئی تفتیش بھی کی؟۔

وکیل امجدپرویز نے کہا کہ ‏نیب نے صرف ڈاکیے کا ہی کام کیا اور اپنی طرف سے کوئی تفتیش نہیں کی بلکہ نواز شریف کو صرف جے آئی ٹی میں دیے گئے بیان کی تصدیق کیلئے بلایا گیا تھا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نےاستفسارکیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ پوری جے آئی ٹی رپورٹ نیب نے ریفرنس میں شامل کر دی؟ 

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ کیا نیب نے خود سے نواز شریف کو نوٹس جاری کیا تھا؟ ہم اس ریفرنس میں پہلے بھی اپیلیں سن چکے ہیں، معذرت کے ساتھ اس ریفرنس میں چارج ہی درست طور پر فریم نہیں کیا گیا،عدالت کو خود پتہ نہیں تھا کہ مریم نواز کا کیس میں کردار ہی کیا ہے، کیا وہ مرکزی ملزمہ ہیں یا اعانتِ جرم کا الزام ہے۔

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے نواز شریف اور مریم نواز کی عدم موجودگی میں فیصلہ سنایا،میاں نواز شریف اور مریم نواز کلثوم نواز کی عیادت کیلئے لندن میں موجود تھے،مریم نواز اُس وقت کینسر کی آخری سٹیج پر تھیں،احتساب عدالت کو فیصلے کی تاریخ تبدیل کرنے کی استدعا کی گئی،ٹرائل کورٹ نے ہماری درخواست اُسی دن مسترد کر دی،احتساب عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف اور مریم نواز کو سزا سنا دی۔
اعظم نذیر تارڑ نے عدالت سے نواز شریف کو حاضری سے استثنیٰ دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ہر پیشی پر سکیورٹی مسائل ہوتے ہیں، نواز شریف کو استثنیٰ دیا جائے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ آپ استثنیٰ کی درخواست دیں، پھر ہم دیکھیں گے، ایسے تو ہم نہیں کہہ سکتے۔اب دیکھیں نا کیا حال ہوا ہے آئندہ سے پچاس لوگوں کو اجازت دیں گے ، آئندہ سے پچاس لوگوں کو کمرہ عدالت میں اجازت ہو گی۔آج سماعت کو یہاں پر ہی ختم کرتے ہیں،آج بھی موبائل کمرہ عدالت میں بج رہے تھے ۔

بعد ازاں عدالت نے نواز شریف کی سزا کیخلاف اپیلوں پر سماعت 29 نومبر تک تک ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ عدالت نے فریقین سے ایون فیلڈ ریفرنس میں اپیل پر دلائل طلب کر رکھے ہیں۔

گزشتہ سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کیلئے چار سے چھ گھنٹے کا وقت دینے کی استدعا کی تھی جبکہ نیب نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اپیل پر دلائل کیلئے صرف آدھا گھنٹہ دینے کی استدعا کی۔

مزیدخبریں