ویب ڈیسک:ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ آئین میں تبدیلی نہ ہوئی تو حکمرانوں کو تبدیل کر دیا جائے گا۔
ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا اقتدار کراچی کی سڑکوں سے چلے گا، ہم پاکستان کو ایک موقع دے رہے ہیں، یہاں کے جاگیردار حکمرانوں سے جواب لیں گے۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ آج بھی کورنگی پاکستان کو بچانے کے لئے یہاں جمع ہے، اب تک ہم نے مٹی کی محبت میں وہ قرض چکائے ہیں جو واجب نہیں تھے، اس کورنگی کو ظلم کی آماجگاہ بنایا گیا، ظالم ہار رہا ہے جابر اپنے گھر بھاگ رہا ہے، کراچی کے بیٹے اور یہاں کے وارث آ گئے ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر ڈپٹی کنوینر فاروق ستار نے کہا کہ اب دوہرا معیار نہیں چلے گا، ہمیں اپنے حقوق اور مقامی خود مختاری چاہئے۔ ہر یوسی سے آنے والے کارکنوں کو سلام پیش کرتا ہوں، حق پرستوں کا مان ایم کیو ایم پاکستان ہے، ایم کیو ایم پاکستان کا مان کورنگی ٹاؤن ہے، یہ صرف اور صرف خالصتاً کورنگی ٹاؤن کا جلسہ ہے۔
فاروق ستار نے کہا کہ مہنگائی ساتویں آسمان پر پہنچ چکی ہے، غربت ہر گھر میں بسیرا کررہی ہے، پانی نایاب ہوگیا ہے، بجلی کا بحران الگ قیامت برپا کررہا ہے، سٹریٹ کرائم اب سپیڈ کرائم ہو رہے ہیں، سٹریٹ کرائم میں کراچی کے لوگ جاں بحق ہورہے ہیں، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے پرچے آؤٹ ہورہے ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ایک بار ہمیں پانچ سال کیلئے حکومت دے دو، اتنا کام کریں گے تمہیں لاڑکانہ بھی نہیں جیتنے دیں گے۔ایم کیو ایم نے کراچی کو 29 ٹاؤنز میں بانٹ رکھا ہے، ہر علاقے کی سطح پر جلسہ کر رہے ہیں، سندھ سے لوگوں کو یا کسی دوسرے ٹاؤنز سے بھی نہیں بلایا گیا، جن لوگوں کو شہر پر قبضے کا شوق ہے انہیں کام، عوام کی خدمت کرنی چاہئے تاکہ لوگ تمہیں یاد رکھیں۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ سندھ حکومت پندرہ سالوں سے جن کے پاس ہے انہیں چیلنج کرتا ہوں ایک مرتبہ سندھ ہمیں دے دو تمہں مقابلے کے قابل نہیں چھوڑیں گے۔
ایم کیوایم پاکستان کی سینئر ڈپٹی کنوینر نسرین جلیل نے کہا کہ کورنگی ہمیشہ سے ایم کیو ایم کا مضبوط گڑھ رہا، ہمارے آج بھی 100 کارکن لاپتہ ہیں۔کورنگی میں اتنی بڑی تعداد میں عوام کو دیکھ کر خوشی ہورہی ہے، کورنگی نے اس تحریک کی جدوجہد میں قربانیوں کی تاریخ رقم کی ہے۔ لاپتہ کارکنوں میں کورنگی کے بھی 8 کارکن آج تک لاپتہ ہیں، جب ہمارے بھائیوں کو گھروں سے بے گھر ہونا پڑا تو خواتیں نے بھاگ دوڑ سنبھالی۔