ایک نیوز:رومی دیومالا میں مشتری کو آسمانی بجلی کا دیوتا قرار دیا گیا تھا اور اب پہلی بار انکشاف ہوا کہ نظام شمسی کے اس سب سے بڑے سیارے میں بہت زیادہ آسمانی بجلی کڑکتی ہے۔
تفصیلات کےمطابق برسوں پہلے امریکی خلائی ادارے ناسا کے ووئجر1 مشن نے مشتری میں آسمانی بجلی کی موجودگی کا انکشاف کیا تھا مگر اب تک اس بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا۔
مگر اب ناسا کے جونو مشن کے ڈیٹا سے اس بارے معلوم ہوا اور اس کا موازنہ زمین میں آسمانی بجلی کے واقعات سے کیا گیا ہے۔
جرنل نیچر کمیونیکیشنز میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ مشتری کا زیادہ تر حصہ ہائیڈروجن اور ہیلیم پر مشتمل ہے اور وہاں زمین کی طرح نائٹروجن، آکسیجن اور پانی کے بخارات کا غلبہ نہیں، مگر پھر بھی پانی اور برف کے بادل درجہ حرارت کو نقطہ انجماد سے کچھ نیچے رکھتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ مشتری کے بادل بھی زمین کی طرح پانی کے بنے ہوتے ہیں اور ان میں آسمانی بجلی بنتی ہے۔
جونو مشن کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال سے عندیہ ملا کہ مشتری اور زمین میں آسمانی بجلی کا عمل لگ بھگ ایک جیسا ہوتا ہے حالانکہ دونوں سیارے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔
مشتری پر بھی زمین کی طرح طاقتور برقی میدان بنتے ہیں اور آسمانی بجلی ان میدانوں کے درمیان گرتی ہے۔
البتہ مشتری میں ایسا زیادہ تر قطبین میں ہوتا ہے جبکہ زمین میں کسی بھی جگہ آسمانی بجلی گر جاتی ہے۔
محققین نے بتایا کہ آسمانی بجلی ایک برقی اخراج ہوتا ہے جو گرجدار بادلوں کے درمیان ہوتا ہے، اس عمل کے دوران ایک بڑا برقی میدان تشکیل پاتا ہے اور بجلی کا اخراج متحرک ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ ایک سادہ وضاحت ہے کیونکہ سائنسدان اب بھی مکمل طور پر یہ سمجھ نہیں سکے کہ اس طرح کے بادلوں کے اندر حقیقت میں کیا ہوتا ہے۔
نظام شمسی کے دیگر گیس سے بنے سیاروں جیسے زحل، نیپچون اور یورینس میں بھی آسمانی بجلی کی موجودگی ثابت ہوئی ہے۔