ایک نیوز: اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی 7 مقدمات میں ضمانت منظور کرتے ہوئےپولیس کو گرفتاری سے روک دیا۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ سماعت ہوئی۔کیس کی سماعت چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بینچ نے کی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ آپکی درخواست پر اعتراض دور ہوگئے ہیں،پہلے بھی بتایا تھا کہ بائیو میٹرک تو کہیں سے بھی ہو سکتی ہے۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ میں معزرت خواہ ہوں اگلی بار دیکھ لینگے۔60سال سے زائد عمر بائیو میٹرک کا ایشو ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے عامر فاروق نےریمارکس دیئے کہ کیا 60سال والوں کے انگھوٹے کا نشان نہیں ہوتا۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان نے 17 مارچ حفاظتی ضمانت لاہور ہائیکورٹ سے کرائی تھی،پھر 18 مارچ یہاں آئے لیکن انسداد دہشت گردی عدالت سے ضمانت نہیں لے سکے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیوں ٹرائل کورٹ نہیں گئے؟پہلےاس پر عدالت کی معاونت کریں۔ہم نے آخری سماعت پر بھی کہا تھا کہ ہم درخواست کے قابل سماعت ہونے کو دیکھ لیں گے۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ وہ ضمانت آج بھی گراؤنڈ پر موجود ہیں،درخواست گزار کی زندگی کی حفاظت ضروری ہے،درخواست گزار پر ایک بار قاتلانہ حملہ ہوچکا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ جو لاء آرڈر کے حالات بناتے ہیں وہ آپ خود بنارہے ہیں،اگر آپ عدالت پیشی پر 10ہزار لوگوں کے ساتھ آؤگے تو لاء آرڈر کے حالات تو ہونگے،درخواست گزار ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہے اور انکی فالورز بھی ہیں۔
عمران خان روسٹرم پر چلے گئے اور استدعا کی کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ بیٹھ جائیں وکیل سب کچھ بتا رہے ہیں، چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کو بات کرنے سے روکتے ہوئے عمران خان کو واپس اپنی نشست پر بیٹھنے کی ہدایت کر دی۔ عمران خان واپس اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو سیکیورٹی خدشات ہیں جو جینوئن ہوں گے، عمران خان پر ایک مرتبہ حملہ بھی ہو چکا ہے۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون کو روسٹرم پر بلا لیا۔
جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا کہ عدالت نے متعدد بار چیف کمشنر کو سیکیورٹی فراہم کرنے کا کہا۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کو ایف ایٹ کچہری سے جوڈیشل کمپلیکس شفٹ کیا گیا ہے، عمران خان کی ذمہ داری ہے کہ وہ پر امن ماحول کو یقینی بنائیں،یہ وہاں گاڑی سے نہیں اترے اور ان کے لوگوں نے وہاں گاڑیاں جلا دیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ سیکورٹی فراہم نہیں کرتے تو پھر وہ کیا کریں،ہمارے پاس آج ہی ایک پٹیشن آئی کل سنیں گے،جب انتظامیہ غیر ذمہ دارانہ جواب دے گی تو پھر کیا ہو گا،پاکستان کے کسی شہری سے متعلق کیا انتظامیہ ایسا کوئی بیان دے سکتی ہے۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں 2سابق وزراء اعظم قتل ہو چکے۔ایک وزیر اعظم پر قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے،آج میں نے 7ضمانت کی درخواستیں دائر کیں ہیں، عمران خان کی ضمانت کی درخواستیں 18 مارچ کو انسداد دہشتگردی عدالت چلی گئیں تھیں،ہمیں جوڈیشل کمپلیکس داخلے کی اجازت نہیں ملی۔
چیف جسٹس عامرفاروق نے استفسار کیا کہ عمران خان بطور سابق وزیراعظم کس سیکیورٹی کے حقدار ہیں؟وہ سیکیورٹی تو ساتھ ہی ہوتی ہو گی۔
فواد چودھری نے کہا کہ عمران خان سے سیکیورٹی واپس لے لی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پٹیشنر اب اسلام آباد میں ہیں تو یہاں سیکیورٹی کس نے دینی ہے؟
فواد چودھری نے کہا کہ یہاں سیکیورٹی وزارت داخلہ نے دینی ہے اور وزیر داخلہ کا بیان تو آپ نے دیکھ ہی لیا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بدقسمتی سے سلمان تاثیر کا واقعہ بھی ادھر ہوا ہے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ مارچ کو الیکشن کمیشن نے صدر کی دی گئی تاریخ کو منسوخ کر دیا ہے،الیکشن کمیشن نے 8اکتوبر کو نئی تاریخ دی،الیکشن کمیشن کو نئی تاریخ دینے کا اختیار ہی نہیں تھا،90روز سے زیادہ کی تاریخ کی آئین اجازت نہیں دیتا،الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کو نظر انداز کیا۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور فواد چودھری کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی،ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ میں نے بھی سیکیورٹی کے حوالے سے بات کی ہے۔
فواد چودھری نے کہا کہ نہیں، آپ نے یہ بات نہیں کی، آپ جھوٹ بول رہے ہیں،آپ سے زیادہ جھوٹ کوئی نہیں بولتا۔ عدالت نے فواد چودھری اور ایڈووکیٹ جنرل کو کراس ٹاک سےمنع کر دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپکے مطابق الیکشن کی تاریخ آگے کرنا درست نہیں ہے،چیف جسٹس نےعلی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کی تاریخ میں توسیع کیسے غلط ہے آگاہ کریں؟
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ عدالتی حکم کی 3مرتبہ عدولی کی گئی۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نےعمران خان کی 7مقدمات میں عبوری ضمانت منظور کر تے ہوئے پولیس کو گرفتاری سے روک دیا۔سابق وزیراعظم عمران خان سےسکیورٹی واپس کیوں لی عدالت نے جواب طلب کرلیا۔
واضح رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے 7 مقدمات میں ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے جس پر رجسٹرار آفس نے اعتراض لگا دیئےتھے۔