ایک نیوز:قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے الیکشن ترمیمی بل 2024 کی کثرت رائے سے منظوری دے دی۔ الیکشن ترمیمی بل 2024 قائمہ کمیٹی میں منظوری کے لئے پیش کیا گیا تو سنی اتحاد کونسل نے بل کی مخالفت کر دی۔
وفاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ نے کمیٹی کو بریف کرتے ہوئے بتایا کہ اس سے قبل انتخابات 1976 کے روپا ایکٹ کے تحت ہوتے تھے۔ 2015 میں انتخابی اصلاحات کے عمل کا آغاز کیا گیا ۔ انتخابی اصلاحات کے لئے قائم کردہ کمیٹی میں تمام پارلیمانی جماعتوں کو نمائندگی دی گئی۔ 2017 کے الیکشن ایکٹ کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔
اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ حاضر سروس ججز پر کام کے بوجھ کی وجہ سے الیکشن ٹربیونلز میں ریٹائرڈ جج کو رکھا گیا ہے۔ انتخابی عذرداریاں الیکشن ٹریبونل میں جاتی ہیں۔ ریٹائرڈ ججز کو ٹریبونل میں دوبارہ میں شامل کرنے کے لئے آرڈیننس کا اجراء کیا گیا۔ دوبارہ 2017 کے متفقہ ڈاکیومنٹ کو بحال کرنے کے لئے یہ آرڈینیس متعارف کرایا گیا ہے۔
راجہ قمر الاسلام نے کہا کہ اس وقت جو دستاویز لاگو ہیں وہ کہاں ہیں؟ علی محمد خان نے استفسار کیا کہ 2017 کے قانون کو 2023 میں تبدیل کیوں کیا گیا ؟اس وقت قانون کو تبدیل کرنے کا کیا جواز ہے؟ تاثر یہ ہے کہ ریٹائرڈ جج کو دباؤ میں لانا آسان ہوتا ہے۔ریٹائرڈ جج عذرداری کا جلد فیصلہ کیوں کرے گا ؟ سیاسی مداخلت سے غیر سیاسی مداخلت زیادہ خطرناک ہے۔
بشیر محمود ورک نے کہا کہ حاضر سروس ججز اداروں پر اپنی فوقیت ثابت کر رہے ہیں۔ مجھے حاضر سروس ججوں کے رویے سے خوف آتا ہے۔ الیکشن ٹریبونلز میں ججوں کی تعداد ہر صورت بڑھانا ہو گی۔
شیخ آفتاب نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیار میں کسی اور ادارے کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ علی موسیٰ گیلانی نے استدلال کیا کہ ریٹائرڈ جج کو آخرت کا زیادہ خوف ہوتاہے۔
علی محمد خان نے کہا پی ڈی ایم حکومت نے ایسے قانون میں تبدیلی کی جس کے تحت 9 عام انتخابات ہوئے۔ موجودہ حکومت 2023 میں بنائے گئے اپنے قانون میں اتنی جلدی سے تبدیلی کیوں کر رہی ہے؟ قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے الیکشن ترمیمی بل 2024 پر ووٹنگ کے بعد بل کی اکثریت رائے سے منظوری دے دی۔