ایک نیوز: وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر سے ملاقات کے بعد بھارتی وزیراعظم مودی سے سوال پوچھنے پر صحافی صابرینہ صدیقی کو ’آن لائن ہراسیت‘ کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق وال سٹریٹ جنرل سے وابستہ صحافی صابرینہ صدیقی نے امریکی صدر جو بائیڈن کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران نریندر مودی سے ’انڈیا میں جمہوریت‘ سے متعلق سوال پوچھا تھا۔
وال سٹریٹ کے مطابق صابرینہ صدیقی کا کہنا ہے جب جب سے انہوں نے نریندر مودی سے سوال پوچھا انڈیا کے اندر سے لوگ انہیں انٹرنیٹ پر شدید تنقید اور ہراسیت کا نشانہ بنا رہے ہیں اور مسلمان ہونے کی وجہ سے بھی ہدف بنایا جا رہا ہے۔
نریندر مودی نے جواب میں کہا کہ ’مجھے حیرت ہے کہ یہ آپ کس بنیاد پر کہہ رہی ہیں۔ ہم ایک جمہوریت ہیں۔ جمہوریت ہماری روح ہے اور ہم ایک جمہوریت میں سانس لیتے ہیں۔‘
وائٹ ہاؤس کی نیشنل سکیورٹی کے اعلٰی افسر جان کربی سے جب صحافی کو ہراساں کیے جانے کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’وائٹ ہاؤس اس معاملے سے باخبر ہے کہ خاتون کو ہراساں کیا گیا۔‘’یہ قطعی ناقابل قبول ہے۔ ہم دنیا کے کسی بھی حصے میں کسی بھی معاملے پر کسی بھی صحافت کو ہراساں کیے جانے کی مذمت کرتے ہیں۔‘ان کے مطابق ’یہ جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔‘
وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری کرینے جین پائری پوڈیم پر پہنچیں اور کہا کہ ’جان کربی نے جو کچھ کہا میں اس کی تائید کرتی ہوں اور وائٹ آزاد صحافت کے لیے پرعزم ہے۔ ہم ایسے کسی بھی اقدام کی مذمت کرتے ہیں جو صحافیوں ڈرانے کے لیے ہو حالانکہ وہ صرف اپنا کام کر رہے ہوتے ہیں۔‘
صابرینہ صدیقی نے آن لائن تنقید کے جواب میں ایسی تصویریں شیئر کیں جن میں انہوں نے انڈین ٹیم کی ٹی شرٹس پہن رکھی تھی اور اپنے والد کے ہمراہ انڈین ٹیم کے لیے نعرے لگا رہی تھیں اور وہ انڈیا کی ہی رہنے والی ہیں۔ ’جب سے کچھ لوگوں نے میری ذاتی بیک گراؤنڈ کے بارے میں سوال اٹھایا ہے۔ اس کے بعد لگتا ہے کہ پوری تصویر دکھائی جائے۔ بعض اوقات شناختیں اس سے زیادہ پیچیدہ ہوتی ہیں جتنی وہ دکھائی دیتی ہیں۔‘