فوج کی زیرحراست 102 ملزمان کی فہرست پیش: چیف جسٹس کا گرفتار ملزمان کی گھربات کروانے کا حکم

Jun 27, 2023 | 13:10 PM

ایک نیوز: فوجی عدالتوں میں سویلینر کے ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے سربمہر لفافے میں فوج کے پاس زیرحراست ملزمان کی فہرست پیش کردی۔ چیف جسٹس نے ملزمان کو اچھی خوراک اور گھر والوں سے فون پر بات کروانے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سمجھ سے باہر ہے کہ جب کسی کیخلاف ثبوت ہی نہیں تو فوج اسے گرفتار کیسے کرسکتی ہے؟

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی بنچ میں شامل ہیں جبکہ جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بنچ کا حصہ ہیں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیر روسٹرم پر آ گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بھی اس معاملے پر درخواست داٸر کی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپکی درخواست کو نمبر لگ گیاہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں خوشی ہے کہ سپریم کورٹ بار کی جانب سے بھی درخواست آٸی۔ اچھے دلاٸل کو ویلکم کیا جائے گا۔ جب درخواست کو نمبر لگے گا تب دیکھ لیں گے۔ 

چیٸرمین پی ٹی آٸی کے وکیل عزیر بھنڈاری کے دلاٸل شروع:

وکیل پی ٹی آئی نے اپنے دلائل میں کہا کہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ میرے دلائل صرف سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف ہوں گے۔ فوجیوں کے خلاف ٹرائل کے معاملے سے میرا کوئی لینا دینا نہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کل پریس کانفرنس میں کہا کہ ٹرائل جاری ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اٹارنی جنرل کے بیان سے متضاد ہے۔ 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی تک کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں آپ کی بات پر یقین ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ پارلیمنٹ بھی آئینی ترمیم کے بغیر سویلین کے ٹرائل کی اجازت نہیں دے سکتی۔ اکیسویں ترمیم میں یہ اصول طے کر لیا گیا ہے کہ سویلین کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اگر اندرونی تعلق کا پہلو ہو تو کیا تب بھی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا؟ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اندرونی تعلق بارے جنگ کے خطرات دفاع پاکستان کو خطرہ جیسے اصول اکیسویں ترمیم کیس کے فیصلے میں طے شدہ ہیں۔ جسٹس یحیٰی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آئی ایس پی آر کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کے بعد صورتحال بالکل واضح ہے۔ کیا اندرونی تعلق جوڑا جا رہا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی جو کارروائی چل رہی ہے وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ (ٹو ڈی ون) کے تحت  ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ ملٹری کورٹس بھیجے گئے ملزمان پر سیکشن 2ڈی ون لگائی گئی ہے یا 2 ڈی 2 ؟  کل کے بعد اسی معاملے کی وضاحت ضروری ہو گئی ہے۔ 

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی تک سیکشن 2ڈی 2 لگائی گئی ہے۔ سیکشن 2 ڈی ون کا اطلاق بعد میں ہو سکتا ہے۔ آج کے دن تک 2 ڈی ٹو کا ہی اطلاق ہوا ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی ایل ای اور ڈسٹرکٹ بار کیس کے فیصلے سویلین کا فورسز کے اندر تعلق سے متعلق کچھ ٹیسٹ آپلائی کرتا ہے، کیسے تعین ہوگا ملزمان کا عام عدالتوں میں ٹرائل ہو گا یا ملٹری کورٹس میں؟ جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل ملزمان کی حوالگی سے متعلق بتائیں کونسا قانون استمال کیا جارہا ہے؟ 

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزمان کی حوالگی سے متعلق ٹو ڈی ون کا استعمال کیا جارہا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دلچسپ بات ہے کہ ہمارے پاس آفیشل سیکریٹ ایکٹ دستیاب ہی نہیں اور ہوا میں باتیں کی جارہی ہیں۔ ٹو ڈی ون کے تحت کونسے جرائم آتے ہیں عدالت کی معاونت کریں۔ 

وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ کیا کوئی جرم آرمی ایکٹ کے اندر آسکتا ہے یا نہیں یہ الگ سوال ہے، لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ افواج سے متعلق جرائم پر ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں؟ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ججز کی تقرری کا آرٹیکل 175(3) 1986 میں آیا، جن عدالتی نظائر کی بات آپ کر رہے ہیں ان کے مقابلے میں اب حالات و واقعات یکسر مختلف ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ایسا کیا ہے جس کا تحفظ آئین فوجی افسران کو نہیں دیتا لیکن باقی شہریوں کو حاصل ہے؟ وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ فوجی جوانوں اور افسران پر آئین میں درج بنیادی حقوق لاگو نہیں ہوتے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہم ماضی میں سویلین کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مثالوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے، ماضی کی ایسی مثالوں کے الگ حقائق ،الگ وجوہات تھیں۔

وکیل درخواستگزار نے کہا کہ شفاف ٹرائل کی بھی شرائط ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 175 تھری جوڈیشل سٹرکچرکی بات کرتا ہے، آئین کا آرٹیکل 9 اور 10 بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں، یہ تمام آرٹیکل بھلے الگ الگ ہیں مگر آپس میں ان کا تعلق بنتا ہے، بنیادی حقوق کا تقاضا ہے کہ آرٹیکل 175 تھری کے تحت تعینات جج ہی ٹرائل کنڈکٹ کرے، سویلین کا کورٹ مارشل ٹرائل عدالتی نظام سے متعلق اچھا تاثر نہیں چھوڑتا، کسی نے بھی خوشی کے ساتھ اس کی اجازت نہیں دی۔ فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے ملک میں بے چینی کی کیفیت ہو گی، ایف آئی آر میں کہیں بھی افیشل سیکریٹ ایکٹ کا ذکر نہیں کیا گیا، آرمی سپورٹس سمیت مختلف چیزوں میں شامل ہوتی ہے،اگر وہاں کچھ ہو جائے تو کیا آرمی ایکٹ لگ جائے گا؟ عزیر بھنڈاری نے سیکشن ٹو ڈی پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب آپ آرمی والے کی بات کرتے ہیں تو اس کی سب سے اہم چیز مورال ہوتی ہے، اگر مورال متاثر ہوتا ہے تو اس کا فائدہ بھی دشمن کو ہو گا۔

سماعت میں آدھے گھنٹہ کا وقفہ کر دیا گیا۔

وقفے کے بعد چئیرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل کا دوبارہ آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں کچھ جرائم 2015 اور پھر 2017 میں شامل کیے گئے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 12 کے تحت تو بیان کردہ جرائم قابل ضمانت ہیں۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ احمد فراز کے فوج کے خلاف اشعار لکھنے پر کیس چلا تھا، احمد فراز کے قریبی ساتھی سیف الدین سیف نے ان کی رہائی کا کیس لڑا، احمد فراز سے متعلق کیس کے فیصلے میں بھی کہا گیا کہ سویلین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ عزیزبھنڈاری نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اگر ایک شخص پر آرمی ایکٹ کے تحت چارج ہی نہیں تو اس کے خلاف فوج تحقیقات بھی کیسے کر سکتی ہے؟ جب کوئی آرمی ایکٹ کے دائرے میں آتا ہی نہیں تو اس شخص کے خلاف کارروائی کیسے ہو سکتی ہے؟ آرمی اتھارٹیز تو اس طرح کچھ بھی کرنے کا اختیار نہیں رکھتیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سمجھ سے باہر ہے کہ جب کسی کے خلاف ثبوت نہیں تو فوج اسے گرفتار کیسے کر سکتی ہے؟ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ ایک مجسٹریٹ بھی تب تک ملزم کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتا جب تک پولیس رپورٹ نا آئے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اب تک کے ریکارڈ کے مطابق تو گرفتار افراد کے خلاف کوئی چارج نہیں ہے، چارج کے بغیر کیسے کسی کو فوجی تحویل میں رکھا جا سکتا ہے؟ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی کے خلاف شواہد نا ہونے پر کارروائی کرنا تو مضحکہ خیز ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آرمی رولز کے مطابق کسی شخص کو پہلے گرفتار کیا جاتا ہے پھر اس کے خلاف تحقیقات یا کارروائی کا آغاز ہوتا ہے۔ جسٹس یحیی آفریدی نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے حقائق درخواست گزاروں کی جانب سے سامنے آئے، اگر آپ ان کے حقائق سے اتفاق نہیں کرتے تو عدالت کو آگاہ کریں۔ 

جسٹس عائشہ ملک نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ نے ڈیٹا بھی فراہم کرنا ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں تمام ریکارڈ اور دستاویزات تحریری طور پر جمع کرا دوں گا، میں نے آرمی ایکٹ کے سیکشن 73 کے تحت لگے الزامات کی تفصیلات بھی جمع کرانی ہیں۔ 

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا چارج فریم ہو گیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ چارج فریم نہیں ہوا صرف الزامات کی بنیاد پر جو کارروائی ہوئی اس کی بات کر رہا ہوں، میں اپنی تحریری معروضات کے ساتھ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کی معلومات فراہم کروں گا، میں ایف آئی آر میں افیشل سیکریٹ ایکٹ کا ذکر نہ ہونے پر بھی معاونت کروں گا، ملزمان کی کسٹڈی لیتے وقت الزامات بھی فراہم کردیے تھے، 9 مئی کا واقعہ تھا جس کے بعد 15 دن لیے گئے پھر ملزمان کی حوالگی کا عمل ہوا۔

اٹارنی جنرل نے فوج کی زیرحراست 102 افراد کی تفصیلات پیش کردیں:

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ آج اپنے تحریری دلائل جمع کروائیں گے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں تحریری دلائل وقفہ کے بعد جمع کروا دوں گا۔ چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ سے معروضات کی تفصیل بھی مانگی تھی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس وقت 102 ملزمان ملٹری تحویل میں ہیں۔ تحویل میں موجود ملزمان کو گھر والوں سے فون پر بات کرنے کی اجازت دی جائے گی۔

اٹارنی جنرل نے ملٹری کے زیر حراست 102افراد کی تفصیلات سربمہر لفافے میں عدالت کو پیش کردی۔ چیف جسٹس نے سربمہر لفافہ کھول کر تفصیلات دیکھیں۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ والدین بیوی بچوں اور بہن بھائیوں کو گرفتار ملزمان سے ہفتے میں ایک بار ملاقات کی اجازت ہو گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں نے کچھ جیلوں کا دورہ کیا وہاں بھی ملزمان کو فون پر بات کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزمان کو جو کھانا دیا جاتا ہے وہ عام حوالات سے کافی بہتر ہے، کھانا محفوظ ہے یا نہیں اس کا ٹیسٹ تو نہیں ہوتا مگر وہ کھانا کھانے سے کسی کو کچھ ہوا تو ذمہ داری بھی شفٹ ہو جائے گی۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا ہم 102 افراد کی لسٹ کو پبلک کر سکتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی نہیں ابھی وہ زیرتفتیش ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیوں خفیہ رکھا جا رہا ہے کہ 102 ملزمان کون سے ہیں؟ سادہ سوال ہے کیوں حراست میں موجود لوگوں کی فہرست بپلک نہیں کر دیتے۔

جسٹس یحیی آفریدی نے ہدایت کی کہ پہلے یقینی بنائیں کہ زیر حراست افراد کی اپنے والدین سے بات ہو جائے۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ عید پر ہر کسی کو پتہ ہونا چاہیے کہ کون کون حراست میں ہے، عید پر سب کی اپنے گھر والوں سے بات ہونی چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ فہرست پبلک کرنے کے حوالے سے ایک گھنٹے تک چیمبر میں آگاہ کر دوں گا، صحت کی سہولیات سب زیر حراست ملزمان کو مل رہی ہیں ڈاکٹرز موجود ہیں، صحافیوں اور وکلا کے حوالے سے کچھ واقعات ہوئے ہیں، ریاض حنیف راہی سے کل بات بھی کی، ان کی شکایات کا ازالہ ہو گا،

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا موجودہ کیسز میں سزائے موت کا کوئی ایشو ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سزائے موت غیر ملکی رابطوں کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ملزمان کی آج ہی اہلخانہ سے بات کروائیں۔

عمران ریاض کو تمام تر وسائل لگاکر ٹریس کرنے کی کوشش کریں: چیف جسٹس

لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ آئی سی جے کی رپورٹ میں ملٹری ٹرائل میں سزائے موت کا ذکر بھی تھا۔ ہم بھی انسان ہیں، 25 کروڑ پاکستانیوں کا معاملہ ہے۔ میرے گھر کی جیو فینسنگ نا کرائی جا سکی۔ 

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ صحافیوں کے غائب ہونے کے معاملے پر وفاقی حکومت ہر ممکن کوشش کرے۔ ان کو ٹریس کرے اور واپس لائے۔ 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ مسٹر عمران ریاض کی بات کر رہے ہیں؟ اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران ریاض کیا حکومت کی کسٹڈی میں نہیں ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران ریاض حکومت کی کسٹڈی میں نہیں ہیں۔ 

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ عمران ریاض کو تمام تر وسائل لگا کر ٹریس کرنے کی کوشش کریں۔ مجھے فون پر خط موصول ہوا جس میں مجھ پر الزام تھا کہ میں عمران ریاض کی خاطر کچھ نہیں کر رہا۔ اس طرح کی حرکات سے معاشرے میں خوف و ہراس پھیلتا ہے۔ ہم اب عید کے بعد ملیں گے۔ عید کے بعد پہلے ہفتے میں بتائیں گے کہ کیس کی سماعت کب ہوگی۔

‏اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوج کے زیر حراست افراد کی ایک بار اہلخانہ کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کرائی جائے گی اور ہفتے میں ایک بار فیملی کے ساتھ ملاقات بھی کرائی جائے گی۔ ‏کپڑے اور کتابیں دینے کی اجازت ہوگی مگر گھر کا پکا ہوا کھانا نہیں دیا جا سکتا۔ 

وکلا کی ملٹری کورٹس کے خلاف حکم امتناعی کی استدعا:

وکلاء کی ملٹری کورٹس کے خلاف حکم امتناعی کی استدعا کو سپریم کورٹ نے مسترد کردیا۔اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ ابھی کوئی ٹرائل شروع نہیں ہوا اور اس میں وقت بھی لگتا ہے، ملزمان کو پہلے وکلا کی خدمات لینے کا وقت ملے گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کچھ ہوا مجھے فوری آگاہ کیا جائے، میں آئندہ ہفتے سے دستیاب ہوں گا، خواتین اور بچوں کا خصوصی خیال رکھا جائے۔ 

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت غیرمعینہ مدت تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔ 

مزیدخبریں