ایک نیوز: کیپٹن محمد سرور شہید(نشان حیدر) کا آج 75واں یومِ شہادت منایا جارہا ہے۔ کیپٹن محمد سرورپاکستان کی عسکری تاریخ کا پہلا نشان حیدر حاصل کرنے والے بہادر سپوت ہیں۔ کشمیرکی وادیاں آج بھی ان کی بہادری کی گواہ ہیں۔
مادرملت پر شہید ہونے والے کیپٹن سرور شہید نے دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بتایا سرزمین پاک کیلئے خون بہانا خوش نصیبی ہے۔ ازلی دُشمن بھارت کی فوج پر اپنی شجاعت و بہادری کی دھاک بٹھا کر دُشمن کے مورچوں میں گھس کر اُس کے دانت کھٹے کرنے والے پاک فوج کے جانباز ہیروکیپٹن محمد سرور شہید پاکستان کے پہلے سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر حاصل کرنے والے مجاہد ہیں۔
کیپٹن محمد سرور شہید نے اپنے خون سے دھرتی ماں کی آبیاری کی اور ہمیشہ کیلئے امر ہو گئے۔ کشمیر کی وادیاں آج بھی گواہ ہیں کہ کس طرح کیپٹن محمد سرور اپنے خون کے آخری قطرے تک لڑے۔ کیپٹن محمد سرور راولپنڈی کے گاؤں سنگھوری میں 10 نومبر 1910 کو پیدا ہوئے۔
آپ کا تعلق ایک فوجی گھرانے سے تھا اورآپ کے والد جناب محمد حیات خان بھی فوج میں تھے۔ کیپٹن محمد سرور شہید نے 1927 ء میں دسویں جماعت میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ اس وقت آپ کی عمر 17 برس تھی۔ کیپٹن محمدسرور نے 1944ء میں پنجاب رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا، جس کے بعد دوسری عالمی جنگِ عظیم میں حصہ لیااور شاندار فوجی خدمات کے پیشِ نظر 1946ء میں انہیں مستقل طور پر کیپٹن کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔
آپ نے 27 جولائی 1948 کو کشمیر کے اوڑی سیکٹر میں دشمن کی اہم فوجی پوزیشن پر حملہ کیا۔ اس حملے میں کئی جوان شہید اور زخمی ہوئی لیکن کیپٹن سرور نے پیش قدمی جاری رکھی۔ دشمن کے مورچے کے قریب پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ دشمن نے اپنے مورچوں کو خاردار تاروں سے محفوظ کر لیا ہے، اس کے باوجود کیپٹن سرور مسلسل فائرنگ کرتے رہے اور آگے بڑھتے رہے۔
اپنے زخموں کی پروا کیے بغیر 6 ساتھیوں کے ہمراہ انہوں نے خاردار تاروں کو عبور کر کے دشمن کے مورچے پرآخری حملہ کیا۔ دشمن پر برسٹ کے ساتھ“اللہ اکبر“ کے نعرہ سے ایسا جاہ و ہشم قائم ہوا کہ دشمن اس چوکی کو چھوڑ کر بھاگ گیا۔ دشمن نے اس اچانک حملے کے بعد اپنی توپوں کارخ کیپٹن سرور کی جانب کر دیا، یوں ایک گولی کیپٹن سرور کے سینے میں لگی اور آپ نے شہادت پائی۔
صبح کے سورج نے اس پہاڑی پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے دیکھا۔ بہادری کی بے مثال تاریخ رقم کرنے پر انہیں نشانِ حیدر سے نوازا گیا۔
ان کی شہادت کے بعد جنرل ایوب خان نے اپنے خطاب میں کہاکہ ”میں کیپٹن محمدسرور شہید کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں۔ جنہوں نے سب سے پہلے نشانِ حیدر حاصل کر کے پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ بے شک ان کی قربانی پر ہم سب کو فخر ہے۔آئیے ہم سب مل کر عہد کریں کہ اس سنہری کارنامے کی یاد ہمیشہ تازہ رکھیں گے“۔
جنرل ٹکا خان تحریر کرتے ہیں کہ ”پوری قوم سرور شہید کے شاندار کارنامے پر خراج تحسین پیش کرتی ہے۔افواج پاکستان کی تاریخ میں ان کا یہ کارنامہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا“۔
کیپٹن محمد سرور کے دیرینہ ساتھی میجر افضل کہتے ہیں کہ ”میں یوں محسوس کرتا ہوں کہ جیسے سرور شہید ابھی میرے قریب سے گزرے ہیں اور مجھے نصیحت کر کے گئے ہیں کہ میں دشمن کی ناکامی اور ان کی شہادت کی دعا مانگوں۔ مجھے وہ وقت یاد ہے۔ان کی زندگی مثالی تھی میں نیند کا شوقین تھا وہ صبح سویرے اٹھ کر نماز پڑھنے لگتے اور مجھے زبردستی اٹھاتے۔ میں انہیں مولوی کہتا اور وہ مجھے روکتے اور شہید کہہ کر پکارنے کو کہتے“۔
صوبیدار منگت خان کا کہنا ہے کہ ”کیپٹن محمدسرور شہید فضول بات چیت نہ کرتے۔ وہ بہت کم گو تھے اور صرف کام کی بات کرتے تھے،ہمیشہ باوضو رہتے اور وقت کی قدر کرتے تھے“
آج پوری قوم 1948ء کی کشمیر جنگ میں بہادری، شجاعت کی داستاں رقم کرنے والے شہید کیپٹن محمد سرور کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔