ایک نیوز: اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت کے دوران عمران خان اور جج کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی جب کہ شاہ محمود نے سرکاری فائل ہوا میں اچھال دی۔
راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات نے سائفر کیس کی سماعت کی۔ سائفر کیس میں آج 9 گواہوں کے بیانات پر جرح کی گئی۔ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی جانب سے گواہان پر جرح اسٹیٹ ڈیفنس کونسل نے کی۔ وکلاء صفائی کی مسلسل غیر حاضری پر عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو اسٹیٹ کونسل فراہم کئے تھے۔ عدالت نے گزشتہ روز وکلاء صفائی کی عدم حاضری پر ملزمان کو اسٹیٹ ڈیفنس کونسل فراہم کئے تھے۔
تاہم عدالت کے احکامات پر سرکار کی طرف سے مقرر کردہ سرکاری وکلا بھی پیش ہو گئے۔سرکاری وکیل ایڈووکیٹ عبد الرحمن بانی تحریک انصاف کی طرف سے ،حضرت یونس شاہ ایڈووکیٹ محمود قریشی کی طرف سے پیش ہوئے۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت29جنوری تک ملتوی کردی۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے کہا کہ فیصلہ ویسے ہی سنا دیں ، ہمیں وکلا سے مشاورت نہیں کرنے دی جارہی ۔ جن وکلا پر ہمیں اعتماد ہی نہیں وہ کیا ہماری نمائندگی کریں گے ۔ جج صاحب یہ کیا مذاق چل رہا ہے ؟
عمران خان کا کہنا تھا کہ میں تین ماہ سے کہہ رہا ہوں کہ سماعت سے پہلے مجھے وکلا سے ملنے کی اجازت دی جائے۔بارہا درخواست کے باوجود وکلا سے مشاورت نہیں کرنے دی مشاورت نہیں کرنے دی جائے گی تو کیس کیسے چلے گا ۔
جس پر جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین کا کہنا تھا کہ جتنا اپ کو ریلیف دیا جا سکتا تھا میں نے دیا۔سائیکل فراہمی کی بات ہو یا پھر وکلا سے ملاقات میں نے اپ کی درخواست منظور کی میرے ریکارڈ پر 75 درخواستیں ہیں جو ملاقاتوں سے متعلق ہیں
جس پر عمران خان نے کہا کہ آپ نے تو ملاقات کا آرڈر کیا لیکن ملاقات کرائی نہیں گئی۔
سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ادھر بھی سرکار ادھر بھی سرکار یہ مذاق ہو رہا ہےہمیں اتنا حق نہیں کہ اپنے وکلا کے ذریعے کیس لڑ سکیں۔
اس موقع عمران خان نے عدالت سے ایک دلچسپ استدعا کرتے ہوئے کہا کہ کیس کی کاروائی اردو میں ہونی چاہیے۔سرکار کی طرف سے تعینات کردہ وکیل صفائی جو انگریزی بول رہے ہیں وہ ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی۔
بانی تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ شفاف ٹرائل کے تقاضوں سے متصادم ہے۔پاکستان کی تاریخ میں ایسا ٹرائل نہیں ہوا جو اب ہو رہا ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ آپ نے فیصلہ سنانا ہے تو ایسے ہی سنا دیں۔انصاف کا گلا گھونٹا جا رہا ہے ۔ نہ اللہ کا ڈر ہے کسی کو نہ ہی ائین و قانون کا۔ سرکاری وکیلوں کو یہاں طوطا مینا کی کہانی کے لیے بٹھا دیا گیا ہے۔
بانی تحریک انصاف نے سرکاری وکلا پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ مان نہ مان میں تیرا مہمان۔ ان گھس بیٹھیوں کو تو باہر بھیجیں۔ بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ اوپن ٹرائل میں کسی کو جیل انے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہمارے وکلا کو جیل کے اندر نہیں انے دیا جا رہا جس پر عدالت نے کہا کہ شاہ محمود قریشی صاحت اگر آپ خود جرح کرنا چاہتے ہیں تو آپ خود بھی کرسکتے ہیں ۔ تین مرتبہ تاریخ دی مگر اپ کے وکلا نے انے کی زحمت نہیں کی۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ یہ سرکاری ڈرامہ نہیں چلے گا اس طرح سے ٹرائل کی کیا ویلیو رہ جائے گی ۔
جس پر جج نے کہا کہ یہ میرے لیے اسان تھا کہ میں ڈیفنس کا حق ختم کر دیتا ۔ لیکن میں نے پھر بھی سٹیٹ ڈیفنس کا حق دیا۔ اس کسٹڈی کی وجہ سے مجھے یہاں جیل انا پڑ رہا ہے۔ وہ بھی تو کسی ماں کے بچے ہیں جن کے کیس جوڈیشل کمپلیکس میں چھوڑ کر ایا ہوں۔ میں ارڈر کر کر کے تھک گیا ہوں مگر اپ کے وکیل نہیں اتے۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ اگر ٹرائل میں رکاوٹیں اتی ہیں تو عدالت ضمانت کینسل کر سکتی ہے۔ شاہ صاحب اس کیس کو لٹکانے کا کیا فائدہ ہے
جس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ضمانت کے فیصلے کا بھی مذاق اڑایا گیا۔ جیل سے باہر نکلتے ہی ایک اور کیس میں اٹھا لیا گیا۔ جج صاحب جیل میں کوئی خوشی سے نہیں رہتا۔ میں اپنا وکیل پیش کرنا چاہتا ہوں سرکاری وکیلوں پر اعتبار نہیں۔
جس پر جج ابوالحسنات نے کہا کہ اپ اپنے وکیل کو بلا لیں۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پراسیکیوشن کے نامزد کردہ وکیلوں سے ڈیفنس کروایا جا رہا ہے۔ اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ فیصلہ ہمارے خلاف ہو چکا۔
عثمان گل کا کہنا تھا کہ نجم سیٹھی نے اپنے پروگرام میں کہا کہ سائفر کیس کا فیصلہ پانچ فروری تک ہو جائے گا۔ جس پر شاہ محمود قریشی نے کہ نجم سیٹھی کو عدالت بلایا جائے اور پوچھا جائے کہ کہاں سے یہ انفارمیشن ملی۔
جس پر جج ابوالحسنات نے کہا کہ اپ کو نجم سیٹھی کی باتوں پر اعتبار ہے یا عدالت پر اعتبار ہے۔
اس موقع پر پراسکیوٹر رضوان عباسی نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کے ارڈر کی روشنی میں ملزمان کی سائفر کیس میں ضمانت خارج کی جائے۔
جس پر جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ ضمانت کا معاملہ خود دیکھوں گا یہ میرا معاملہ ہے۔
پراسکیوٹر رضوان عباسی کا موفف تھا کہ فیئر ٹرائل وہ نہیں جو وکلا صفائی مانگ رہے ہیں ۔ فیئر ٹرائل وہی ہے جو قانون میں دیا ہوا ہے ۔ پراسیکوٹر رضوان عباسی
جس پر عدالت نے جیل حکام کو بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی ان کے وکلا سے فون پر بات کروانے کی ہدایت کی ۔وکلاء سے مشاورت کیلئے سماعت میں وقفہ کر دیا گیا اور میڈیا نمائندوں کو جیل سے باہر بھجوا دیا گیا۔