سندھ طاس معاہدے سے متعلق تجویز معاملے سے توجہ نہیں ہٹا سکتی،دفترخارجہ

سندھ طاس معاہدے سے متعلق تجویز معاملے سے توجہ نہیں ہٹا سکتی،دفترخارجہ
کیپشن: The proposal regarding the Indus Basin Agreement cannot divert attention from the issue, Foreign Office

ایک نیوز :ترجمان دفتر خارجہ کاکہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدے سے متعلق تجویز کی میڈیا رپورٹس کو ثالثی عدالت کی اہم کارروائی سے توجہ نہیں ہٹانی چاہیے۔

ترجمان دفترخارجہ کا کہنا تھا کہ  "جیسا کہ ہم بات کرتے ہیں، ثالثی کی ایک عدالت کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹس پر پاکستان کے اعتراضات پر دی ہیگ میں اپنی پہلی سماعت کر رہی ہے۔ثالثی عدالت سندھ طاس معاہدے کی متعلقہ دفعات کے تحت قائم کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ  ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کا نوٹس  بھارتی نمائندے کی جانب سے  25 جنوری کو پاک بھارت  کمشنرز برائے انڈس واٹر کو موصول کرادیا گیا ہے۔ 

 یادرہے بھارت اور پاکستان کے درمیان نو سال کے مذاکرات کے بعد ستمبر 1960 میں سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے اور اس کی ثالثی  اور ضمانت کار ورلڈ بینک  ہے لیکن  باہمی کشیدگی کی وجہ سے پاک بھارت  تعلقات اب تک کی کم ترین سطح پر ہیں۔ اور موجودہ آبی جارحیت وجہ سے اس کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا ۔

  سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل XII (3)  کے تحت جاری کردہ نوٹس  میں   پاکستان کو 90 دنوں کے اندر اندر سندھ طاس معاہدے کی  مبینہ خلاف ورزی کو دور کرنے کے لیے بین الحکومتی مذاکرات میں داخل ہونے کا موقع فراہم کرنا ہے

 معاہدے کی دفعات میں وقتاً فوقتاً دونوں حکومتوں کے درمیان اس مقصد کے لیے طے شدہ ایک باضابطہ توثیق شدہ معاہدے کے ذریعے ترمیم کی جا سکتی ہے۔"

 یادرہے سندھ طاس معاہدے کے تحت  دریا سندھ، جہلم، چناب، پاکستان کو اور مشرقی دریا راوی، بیاس اور ستلج بھارت کو دیے گئے۔ اس نے ہر ملک کو دوسرے کے لیے مختص دریاؤں پر مخصوص استعمال کی بھی اجازت دی۔