ایک نیوز: سپریم کورٹ میں کراچی کی ڈاکٹر مہرین بلوچ کے بچیوں کی بازیابی کے کیس کی سماعت ہوئی جس میں عدالت نے پانچ سال سے بچیوں کی عدم بازیابی پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ عدالت ریاستی اداروں کو مضبوط کرنا چاہتی ہے،سوموٹو کا اختیار اس لئے استعمال نہیں کر رہے کہ ادارے خود سے کام کریں۔ موجودہ سیاسی حالات میں آئینی اور حکومتی ادارے صرف قانون کے مطابق کام کریں۔سوموٹو نہیں لے رہے ہیں لیکن بنیادی حقوق کا تحفظ کرینگے۔کے پی کے پولیس میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہوتی ہے اور بلوچستان میں بھی صورتحال اب پہلے سے کافی بہتر ہے۔
پنجاب اور سندھ کو بھی پولیس مداخلت کے معاملے میں بہتری لانا ہوگی۔ ملک کیخلاف جاسوسی کا کیس نہیں ہے جو حساس اداروں کو شامل کرنا پڑا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تسلیم کریں انتظامیہ میں اہلیت ہی نہیں کہ شہریوں کی حفاظت کر سکے۔شہریوں کے لاپتہ ہونے پر کسی کو تو جوابدہ ہونا ہی پڑے گا۔چھ سال سے بچیاں غائب ہیں کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔ لاپتہ افراد کے ذمہ داران کیخلاف کارروائی ہوتی تو آج یہ کیس نہ سننا پڑتا۔ آپ نام بتائیں کون ذمہ دار ہے اس کیخلاف کارروئی کرینگے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ریاستی اداروں کیخلاف کارروئی کرنا اچھا عمل نہیں ہوگا۔ چیف سیکرٹری سندھ کا کہنا تھا کہ پانچ سال سے بچیوں کی بازیابی نہ ہونا پولیس کی ناکامی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا اس پر کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر بڑوں کیخلاف کارروئی کرنی ہوگی۔بااثر افراد نے نہ آصف بچیوں کے اغواء میں مدد کی بلکہ ملزم کو تحفظ بھی دیا۔
چیف سیکرٹری سندھ کا کہناتھا کہ جے آئی ٹی میں آئی بی کیساتھ آئی ایس آئی اور ایم آئی کو بھی شامل کیا ہے۔ چیف سیکرٹری سندھ کا کہنا تھا کہ اعلی ترین سطح پر بازیابی کی کوشش کر رہے ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ کیا ایک شخص اتنا مضبوط ہے کہ پورے سسٹم کو ناکام بنا دیا ہے؟
عدالت نے سندھ پولیس کو ایک ماہ میں بچیوں کی بازیابی کا حکم دیتے ہوئےمزید سماعت آئندہ ماہ تک ملتوی کر دی ہے۔