ایک نیوز: ملکی سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بظاہر انتخابات سے گریز کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں جبکہ ایک آزاد تھنک ٹینک نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال اتنی خراب نہیں ہے جتنی 2008 اور 2013 کے عام انتخابات میں تھی۔
رپورٹ کے مطابق 2008 کے انتخابات سے چند مہینے قبل صورتحال تاریک نظر آتی تھی، اس وقت سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں قتل کیا گیا تھا، اسی طرح کراچی میں 180 افراد کو مارا گیا تھا جبکہ لال مسجد آپریشن بھی جاری تھا اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو بنایا جارہا تھا۔
2013 کے انتخابات کے دوران عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی اور اُس وقت کی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور دیگر آزاد امیدواروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔
عسکریت پسندوں نے 60 دن کے الیکشن کے عمل کے دوران امیدواروں، الیکشن دفاتر، مختلف سیاسی جماعتوں کے عوامی اجلاسوں، پولنگ اسٹیشنز اور الیکشن کمیشن کے دفاتر پر 59 حملے کیے تھے جس کے نتیجے میں کم از کم 119 افراد ہلاک اور 438 افراد زخمی ہو گئے تھے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کی جانب سے جاری اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی صورتحال 2018 میں ہونے والے گزشتہ عام انتخابات سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔
مزید بتایا گیا کہ سیکیورٹی فورسز بھی 2008 اور 2013 کے انتخابات کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے تیار ہیں۔