سپریم کورٹ کا پنجاب اور کے پی کے میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم

سپریم کورٹ کا حکومت اور پی ٹی آئی کو مشاورت سے ایک تاریخ دینے کا حکم

ایک نیوز: سب سے بڑی خبر، ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے 90 روز میں الیکشن کرانے کا حکم دیدیا ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پر ازخود نوٹس کیس  کا فیصلہ گزشتہ شام محفوظ کرلیا تھا۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ گورنر انتخابات کی تاریخ نہ دے تو صدر مملکت انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کے معاملے پر ازخود نوٹس کا محفوظ فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی اکثریت سے سنایاگیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے پر اختلافی نوٹ دیے ہیں۔

سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسپیکرز کی درخواستیں منظور کرلیں۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ آئین عام انتخابات سے متعلق وقت مقرر کرتا ہے۔ ‏اگر گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو تاریخ کا اعلان بھی خود کر سکتا ہے۔ ‏آئین میں انتخابات 60 اور 90 روز میں کروانے کا حکم دیا گیا ہے۔

فیصلے کے مطابق خیبرپختونخوا اسمبلی گورنر کی منظوری کے بعد تحلیل ہوئی جبکہ پنجاب میں حکومت از خود تحلیل ہوئی۔ ‏جنرل انتخابات کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔ جب گورنر کی جانب سے اسمبلی تحلیل نہ کی گئی ہو تو پھر بھی مقررہ وقت میں انتخابات کرانا لازمی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ‏خیبر پختونخوا کی حد تک گورنر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے تاہم ‏پنجاب میں الیکشن 9 اپریل کو ہوں گے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گورنر خیبرپختونخوا نے انتخابات کا اعلان نہ کرکے آئین کی خلاف ورزی کی۔ الیکشن کمیشن فوری صدر مملکت سے مشاورت کرے۔ کے پی میں الیکشن کی تاریخ دینا گورنر کی ذمہ داری ہے۔ گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو تاریخ بھی دے گا۔ پنجاب میں انتخابات کی تاریخ دینا صدر کی ذمہ داری ہے۔ گورنر فیصلہ نہ کرے تو صدر تاریخ دے سکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کے پی کے کی صدر کی جانب سے تاریخ کو کالعدم قرار دے دیا۔ صدر الیکشن کیمشن کی مشاورت کے ساتھ تاریخ کا اعلان کرے۔ گورنر اپنا آئینی کردار ادا کرنے کا پابند ہے لیکن صدر ہی الیکشن کی تاریخ دیں گے۔ اگر کے پی کے میں گورنر الیکشن کا اعلان نہ کرے تو صدر اعلان کر سکتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صدر کا 20 فروری کو الیکشن کا اعلان آئینی طور پر درست تھا۔ آئین کے آرٹیکل 57 ون وفاق اور صوبوں دونوں پر لاگو ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھےکہ کیس کی سماعت مکمل کرلی گئی ہے فیصلہ آج ہی سنایا جائے گا۔ تاہم بعد میں سیکرٹری ٹو چیف جسٹس  نے شیڈول کی تبدیلی سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ  آج(بروز بدھ) صبح 11 بجے سنایا جائے گا۔  چیف جسٹس نے اہم ریمارکس دئیے سب متفق ہیں کہ آرٹیکل 224 کے تحت 90ر وز میں انتخابات لازم ہیں۔ انتخابات کی تاریخ کون دے گیا۔ عدالت اس حوالے سے فیصلہ دے گی۔

 گزشتہ سماعتوں کا احوال:

یاد رہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے الیکشن ازخودنوٹس کیس کی سماعت کی۔5 رکنی بنچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ  جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر ، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر  شامل ہیں۔ 

واضح رہے کہ  سپریم کورٹ نے حکومت اور پی ٹی آئی کو مشاورت کے بعد الیکشن کی تاریخ دینے کا حکم دیا تھا۔ تاہم  پیپلزپارٹی، ن لیگ  اور  جے یوآئی ف نے الیکشن کی تاریخ دینےسے انکار کردیا۔ پییپلزپارٹی کے  وکیل فاروق نائیک نے عدالت کو بتایا کہ اپنی قیادت سے بات ہوئی ہے۔ پیپلزپارٹی قیادت سے الیکشن کی تاریخ پر بات ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کہتی ہے تاریخ کا اعلان کرنا سیاسی جماعتوں کا کام نہیں۔

اس موقع پر ن لیگ کے وکیل  نے دلائل دئیے کہ بطور سیاسی جماعت مسلم لیگ ن نہیں چاہتی آئین کی خلاف ورزی ہو۔قومی اسمبلی کا الیکشن ہو گا تو پنجاب اور کے پی کے میں منتحب حکومتیں ہوں گی۔منتحب حکومتوں کے ہوتے ہوئے یکساں میدان ملنا مشکل ہے۔قومی اسمبلی کے انتحابات پر سوالیہ نشان اٹھے گا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے  ریمارکس دیئے کہ یہ ایشو اس وقت عدالت کے سامنے نہیں ہے۔ 

وکیل ن لیگ کادلائل میں مزید کہنا تھا کہ عدالت مردم شماری کو بھی مدنظر رکھے۔3 اپریل تک مردم شماری مکمل ہو جائے گی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر مردم شماری انتحابات سے ایک ہفتہ پہلے ہو تو کیا الیکشن ملتوی ہو جائیں گے۔وکیل ن لیگ نے کہا کہ مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہوتی ہیں۔ 

جسٹس منیب اختر کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ موجودہ کیس میں دو اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں۔ وفاق میں سیاسی حکومت ہے وہ کیسے صوبائی الیکشن میں اثر انداز نہیں ہو گی۔

وکیل مسلم لیگ ن نےکہا وفاق کے پاس پاور سیکٹر کے علاوہ کچھ نہیں بچا۔ 

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مردم شماری بھی وفاق کے ہی زیر اہتمام ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل  نے ریمارکس دیئے کیا گارنٹی ہے مردم شماری 30 اپریل کو شائع ہو جائے گی۔ 2016 کی مردم شماری بھی 2022 میں شائع ہوئی۔آئین واضح ہے انتحاب نوے دن میں ہوں  گے۔

جے یو آئی ف کے وکیل کامران مرتضی  کا دلائل میں کہنا تھا کہ الیکشن کی تاریخ دینا گورنر کا اختیار ہے۔ گورنر کے علاوہ کسی کو تاریخ دینے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا۔  مردم شماری ہو چکی ہے۔ایسا ممکن نہیں دو صوبوں میں سابقہ مردم شماری پر الیکشن ہوں ۔ 

جے یو آئی ف کے وکیل کامران مرتضی نےفاروق ایچ نائیک کے موقف سے اختلاف  کیا ۔جے یو آئی ف کے وکیل کامران مرتضی نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا ایک صوبے میں گورنر تاریخ دے اور دوسری میں نہ دے ۔آرٹیکل 105-3 کو غیر موثر نہیں کیا جاسکتا ۔الیکشن ایکٹ میں صدر کا اختیار آئین کےمطابق نہیں ہے۔ الیکشن ایکٹ بناتے ہوئے شاید غلطی ہوئی ہو۔  

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیئے کہ غلطی کو درست آپ نے کرنا ہے یا عدالت نے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پارلیمان نے جو قانون بنایا ہے اسکا کوئی مقصد ہو گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اسمبلی کو قانون سازی کے لیے کتنا وقت درکار ہو گا۔ وکیل جے یوآئی نے جواب دیا کہ وفاق میں تو تیز رفتاری سے قانون سازی ہوتی ہے۔ 

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ گورنر آپکی پارٹی کے ہیں۔انہیں کہیں تاریخ کا اعلان کردیں۔ 

اس موقع پر صدر پاکستان کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا دلائل میں کہنا تھا کہ صدرعارف علوی  تسلیم کرتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں الیکشن کیلئے انہیں تاریخ نہیں دینی چاہیے تھی۔صدر کو کے پی الیکشن کیلئے تاریخ دینے کا اختیار نہیں تھا۔صدر مملکت اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں گے۔گورنر کے پی کے کا موقف معاملے کو پیچیدہ بناتا ہے۔پنجاب میں صدر کو اختیار تھا کے پی میں نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ صدر کو رائےآپ نے کس بنیاد پر دی یہ بتائیں؟

صدر مملکت کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت صدر کو اختیار آئین کے مطابق دیا گیا ہے۔الیکشن کی تاریخ دینے کیلئے صدر اور گورنر کو ایڈوائس کی ضرورت نہیں۔صدر کو صوبائی اسمبلیوں ے الیکشن کی تاریخ دینے کا بھی اختیار ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ صدر کے اختیار پر آپ کا موقف آ گیا۔کیا آپ اسپیکرزکی درخواستوں کا قابل سماعت سمجھتے ہیں۔

صدر مملکت کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیئے کہ درخواستیں 90 روز میں انتخابات کے لیے ہیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ صدر نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف کیسے تاریخ دے دی ۔صدر مملکت کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ صدر ہائی کورٹ میں فریق نہیں تھے۔لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں سیکشن 57 کا حوالہ نہیں تھا۔صدر کو قانونی مشورہ دیا گیا اپنا آئینی اختیار استعمال کریں۔گورنر کے پی کے تاریخ دینے کا اختیار استعمال نہیں کر رہے تھے۔صدر کا حکم کوئی نہیں مان رہا اس لئے عدالتی کارروائی کی حمایت کر رہےہیں ۔

وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل میں کہا کہ 2013اور 2018میں انتخابات کا اعلان صدر نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر کیا ۔صدر مملکت لاہور ہاٸی کورٹ کے حکم سے باخبر تھے۔

قبل ازیں سپریم کورٹ نے حکومت اور پی ٹی آئی کو مشاورت کے بعد الیکشن کی تاریخ دینے کا حکم دیا تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ  نے ریمارکس دئیے کہ  سیاسی قائدین سے مشورہ کرکے الیکشن کی متوقع تاریخ سے آگاہ کریں۔ میرے پنچائتی دماغ میں یہ خیال آیا ہے۔جمہوریت کی یہ ہی منشاہ ہے فریقین لچک دکھائیں۔سیاسی قائدین سے مشورہ کر کے الیکشن کی متوقع تاریخ سے آگاہ کریں۔ جمہوریت کا تقاضا یہ ہے کہ مل بیٹھ کہ الیکشن کی تاریخ طے کریں۔ قانونی باتوں کو ایک طرف رکھ کر ملک کا سوچیں۔ ملک کو آگے رکھ کر سوچیں گے تو حل نکل ہی آئےگا۔

 جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ اصل طریقہ یہ ہی ہے کہ مل کہ فیصلہ کیا جائے۔

اس موقع پر فاروق نائیک  نے کل تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا  کردی۔ فاروق ایچ نائیک  نے کہا وزیراعظم ،آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان سے مشاورت کرنی ہے۔  جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آج مقدمہ نمٹانا چاہتے ہیں۔ عدالت کا سارا کام اس مقدمہ کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ آپس میں تاریخ طے کرنی ہے یا نہیں؟ فیصلہ کر کے عدالت کو بتائیں۔ عدالت صرف یہ بتا سکتی ہے کہ تاریخ کس نے دینی ہے؟ 

وکیل فاروق نائیک نے کہ امعلوم نہیں زردای صاحب کہاں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا آپ نے فون پر ہی بات کرنی ہے ابھی کریں۔ پی ٹی آئی بھی اپنی قیادت سے بات کرے کہ تاریخ کیا ہوسکتی ہے۔  عدالت صرف تاریخ دینے والے کا ہی بتا سکتی ہے۔

فواد چودھری نے کہا اسمبلی جاکر آئینی ترمیم کیلئے تیار ہیں۔  ایسی روایت نہیں ڈالنا چاہتے کہ الیکشن نوے دن سے آگے جائیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے آج صرف تاریخ طے کرنے کا معاملہ دیکھنا ہے۔ اگر 90 دنوں سے تاخیر والی تاریخ آئی تو کوئی چیلنج کردے گا۔معاملہ عدالت میں آیا تو دیکھیں گے۔ کوئی بھی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا۔عدالت کے علاوہ کسی کو انتخابی مدت بڑھانے کا اختیار نہیں۔ٹھوس وجوہات کا جائزہ لے کر ہی عدالت حکم دے سکتی ہے۔

 بعدازاں  چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ  نے کیس کی سماعت 4 بجے تک کیلئے ملتوی کردی۔بعدازاں کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو  پیپلزپارٹی، ن لیگ ، جے یوآئی ف نے الیکشن کی تاریخ دینےسے انکار کردیا۔ پییپلزپارٹی کے  وکیل فاروق نائیک نے عدالت کو بتایا کہ اپنی قیادت سے بات ہوئی ہے۔ پیپلزپارٹی قیادت سے الیکشن کی تاریخ پر بات ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کہتی ہے تاریخ کا اعلان کرنا سیاسی جماعتوں کا کام نہیں۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر ، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر  شامل ہیں۔ 

واضح رہے کہ گزشتہ روزپنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والا9 رکنی لارجر  بینچ ٹوٹ گیا تھا۔عدالت عظمیٰ  کے 5 رکنی بینچ  نے سماعت جاری رکھی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ  آئین کی تشریح کیلئے عدالت سماعت جاری رکھے گی۔ کل ہی سماعت شروع کرکے ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔

صدر مملکت کےوکیل سلمان اکرم راجہ، اٹارنی جنرل شہزاد الہی عدالت  میں موجود رہے۔ وکیل  شہزاد الہٰی نے کہا کہ وہ دلائل دینے کے لیے تیار ہیں۔ اٹارنی جنرل نے اعتراض اٹھایا کہ عدالتی حکم میں سے سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو ادارے کے طور پر جانتے ہیں۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکمنامہ نہیں ہوتا۔ جب ججز دستحط کردیں تو وہ حکمنامہ بنتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ عابد زبیری درخواست گزار کے وکیل ہیں بار کی نمائندگی نہیں کرسکتے۔ اس پر عابد زبیری نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ بار کا وکیل ہوں کسی سیاسی جماعت کا نہیں۔ سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہے کہ انتخابات 90 روز میں ہی ہونے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ صدر اور گورنر معاملہ میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں؟ کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنرز اپنے طور پر دےسکتے ہیں؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نگران حکومت کی تعیناتی اور الیکشن کی تاریخ پر گورنر کسی کی ایڈوائس کاپابند نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جہاں صوابدیدی اختیار ہو وہاں کسی ایڈوائس کی ضرورت نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون کریگا ؟

عابد زبیری نے کہا کہ پنجاب اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن سیکرٹری قانون نے جاری کیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ صدر اور گورنر معاملہ میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں۔ کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنرز اپنے طور پر دےسکتے ہیں؟ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ نگران حکومت کی تعیناتی اور الیکشن کی تاریخ پر گورنر کسی کی ایڈوائس کاپابند نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نوے دن کا وقت اسمبلی تحلیل کیساتھ شروع ہو جاتا ہے۔ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا نگران وزیراعلی الیکشن کی تاریخ دینے کی ایڈوائس گورنر کو دے سکتا ہے؟ عابد زبیری نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کا قیام ایک ساتھ ہوتا ہے۔ جسٹس مںصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا گورنر نگران حکومت کی ایڈوائس مسترد کر سکتا ہے۔وکیل عابد زبیری نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر کا ہے وزیر اعلی کا نہیں۔ 

سیف اللہ کیس 12 ججز نے انتخاب کے عمل کو لازمی قرار دیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 48 کہتا ہے کہ صدر کا ہر عمل اور اقدام حکومت کی سفارش پر ہوگا۔ آیا موجودہ حکومت یا سابقہ حکومت انتخاب کے اعلان کا کہے گی؟چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اس کے مطابق الیکشن کی تاریخ دینا ایڈوائس پر ہوگا۔ 

عابد زبیری نے اپنے دلائل میں کہا کہ آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے چار طریقے بتائے گئے ہیں۔ جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ نگران حکومت تو 7 روز بعد بنتی ہے۔ آئین کی مختلف شقوں کی آپس میں ہم آہنگی ہونا ضروری ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ پنجاب کے کیس میں وزارت قانون نے نوٹیفکیشن جاری کیا گورنر نے نہیں۔ عابد زبیری نے ریمارکس دیے کہ آئین کے آرٹیکل 112 کے مطابق عدم اعتماد ایڈوائس پر یا پھر 48 گھنٹوں میں حکومت ختم ہوسکتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین کے مطابق آج بھی حکومت گورنر سے انتخاب کا کہہ سکتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اگر حکومت کی تاریخ کے حوالے سے ایڈوائس آجائے تو گورنر کیسے انکار کرسکتا ہے۔

عابد زبیری نے اپنے دلائل میں کہا کہ پنجاب میں 22 جنوری کو نگران حکومت آئی تھی۔ نگران حکومت کا اختیار روزمرہ کے امور چلانا ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آٸین واضح ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے پر گورنر تاریخ دے گا۔ گورنر کا تاریخ دینے کا اختیار دیگر معمول کے عوامل سے مختلف ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا نگران حکومت پر پابندی ہے کہ گورنر کو تاریخ تجویز کرنے کا نہیں کہہ سکتی؟ کیا گورنر کو اب بھی سمری نہیں بھجواٸی جا سکتی۔ عابد زبیری نے کہا کہ آٸین کی منشا نوے دن میں انتخابات ہوناہے۔ نگران کابینہ نے آج تک ایڈواٸس نہیں دی تو اب کیا دے گی۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نگران کابینہ کی ایڈواٸس کے اختیار پر اٹارنی جنرل کو بھی سنیں گے۔

عابد زبیری نے کہا کہ صدر کو بعض اختیارات آئین اور الیکشن ایکٹ دیتا ہے۔ الیکشن ایکٹ کے تحت صدر الیکشن کمیشن سے مشاورت کر کے انتحابات کی تاریخ دی سکتا ہے۔ الیکشن ایکٹ آئین کے آرٹیکل دو سو بائیس کی تحت بنایا گیا ہے۔ 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صدر نے الیکشن کی تاریخ دینے میں تاخیر کیوں کی؟ شائد صورتحال واضح نہ ہونے پر تاخیر ہوئی ہو۔ عابد زبیری نے کہا کہ صدر کے وکیل اس سوال کا بہتر جواب دے سکتے ہیں۔ 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گورنر انتحابات کی تاریخ کے لیے کس سے مشاورت کریں گے؟عابد زبیری نے کہا کہ مشاورت الیکشن کمیشن سے ہی ہوسکتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ مشاورت میں وسائل اور حالات کا جائزہ لیا جائے گا۔ اگر الیکشن کمیشن انتحابات کرانے سے معذوری ظاہر کرے کیا پھر بھی گورنر تاریخ دینے کا پابند ہے۔ عابد زبیری نے کہا کہ گورنر ہر صورت تاریخ دینے کا پابند ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ گورنر کے پاس تاریح نہ دینے کا کوئی اختیار نہیں۔ گورنر الیکشن کمیشن کے انتطامات مدنظر رکھ کر تاریخ دے گا۔ بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ گورنر کہہ رہا ہے کہ اسمبلی میں نے تحلیل نہیں کی۔

عابد زبیری نے دلائل دیے کہ تاریخ دینے کی بات کا ذکر صرف آئین کے آرٹیکل 105 (3) میں ہے۔ جسٹس مندوخیل نے حکومت کے انتخاب کی تاریخ دینے پر کوئی پابندی نہیں۔ اتنے دنوں سے اعلان نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ حکومت آئینی ذمہ داری پوری نہیں کررہی؟ نوے روز میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے۔ اٹارنی جنرل سے کہیں گے آئینی نکات پر معاونت کریں۔ عابد زبیری نے کہا کہ وقت کے دباو میں اگر اسمبلی ٹوٹ جائے تو صدر مملکت تاریخ دے گا۔ میرا مؤقف ہے کہ انتخاب کی تاریخ دینا صدر مملکت کا اختیار ہے۔

عابد زبیری نے اپنے دلائل میں کہا کہ گورنر الیکشن کی تاریخ دینے میں ایڈوائس کا پابند نہیں۔ گورنر والا ہی اختیار صدر کو بھی دیا گیا ہے۔ صدر بھی الیکشن کی تاریخ دینے میں ایڈوائس کا پابند نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ گورنر کو اگر ایڈوائس کی جائے تو اس کا پابند ہوگا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے وکیل عابد زبیری کے دلائل مکمل ہوگئے۔

اس کے بعد اٹارنی جنرل شہزاد عطاء الہی نےدلائل کا آغاز کردیا۔ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں۔ دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدر کے صوابدیدی اور ایڈوائس پر استعمال کرنے والے اختیارات میں فرق ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر اسمبلی تحلیل کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دے تو الیکشن کمیشن نہیں مانے گا۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ گورنر نے الیکشن ایکٹ کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن 90 روز میں ہی ہونے چاہیں۔ الیکشنز کو 90 روز سے آگے نہیں لیکر جانا چاہیے۔ انتخابات 90 روز سے آگئے کون لیکر جا سکتا ہے یہ الگ بات ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن گورنر کی تاریخ کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر اگر 85 ویں دن الیکشن کا کہے تو الیکشن کمیشن 89 دن کا کہہ سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گورنر کو اسی وجہ سے الیکشن کمیشن سے مشاورت کا پابند کیا گیا ہے۔ صدر ہو یا گورنر سب ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں۔ سماعت میں کچھ دیر کے لیے وقفہ کر دیا گیا۔

اٹارنی جنرل شہزاد الہی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن آزاد ادارہ ہے جس کی ذمہ داری انتخابات کرانا ہے۔ گورنر پنجاب کا موقف ہے الیکشن کمیشن خود تاریخ دے۔ گورنر نے انٹرا کورٹ اپیل میں کہا ہے کہ ان سے مشاورت کی ضرورت نہیں۔ الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ وہ ازخود تاریخ کیسے دے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ سمجھ نہیں آتا ہائیکورٹ میں 14 دن کا وقت کیوں مانگا گیا؟ بطور اٹارنی جنرل آپ کیس شروع ہوتے ہی مکمل تیار تھے۔ ایسے کون سے نکات تھے جس کی تیاری کےلئے وکلاء کو 14 دن درکار تھے۔ ہائیکورٹ میں تو مقدمہ روزانہ کی بنیاد پر چلنا چاہیے تھا۔ 

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ صدر نے الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 ون کا استعمال کیاہے۔ اگر صدر کا اختیار نہیں تو سیکشن 57 ون غیر موثر ہے۔ اگر سیکشن 57 ون غیر موثر ہے تو قانون سے نکال دیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے حساب سے الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکسدیے کہ الیکشن کمیشن نے اعلان کرنا ہے تو کسی سے مشاورت کی  ضرورت نہیں۔ 

جسٹس منیب اختر نے کہا آئین اور قانون کی منشا کو سمجھیں۔ الیکشن کمیشن نے اعلان کرنا ہو تو صدر  اور گورنر کا کردار کہاں جائیگا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کا کردار ہر صورت میں اہم ہے۔ آپ کے مطابق الیکش کمیشن کا کردار حتمی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن پروگرام پر عمل کریں تو انتحابات 90 روز کی مدت میں ممکن نہیں۔ پنجاب میں نوے دن کی مدت 14 اپریل کو پوری ہورہی ہے۔ پچس اپریل سے پہلے صوبائی عام انتخابات ممکن ممکن نہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نیت ہو تو راستہ نکل ہی جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن اور متعلقہ حکام چاہتے تو حل نکال سکتے تھے۔ انتحابی مہم کے لیے قانون کے مطابق 28دن درکار ہوتے ہیں۔ نوے روز کے اندر انتحابات کے لیے مہم کا وقت کم کیا جاسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن با اختیار ہے کیا شیڈول میں تبدیلی کر سکتا ہے۔ آئین پر عملدرآمد ہر صورت ضروری ہے۔

جسٹس محدم علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ دو یا چار دن اوپر ہونے پر آرٹیکل 254 لگ سکتا ہے۔ جسٹس مںصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کی انتحابات کی تیاری کیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر نے 20 فروری کو الیکشن کی تاریخ دی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن ایکٹ کا اختیار آئین سے بالا تر نہیں ہوسکتا۔ اٹارنی جنرل نے کہ اکہ صدر کا اختیار الیکشن کمیشن سے متضاد نہیں ہوسکتا۔

جسٹس منیب نے ریمارکس دیے کہ آپ بطور اٹارنی جنرل قانون کا دفاع کرنے کی بجائے اس کے خلاف بول رہے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سیکشن 57 ون ختم کردیں تو الیکشن ہو ہی نہیں سکے گا۔ 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں الیکشن کمیشن انتخاب تاریخ کا اعلان کرے۔ الیکشن کمیشن کہہ سکتا ہے 14 اپریل تک الیکشن ممکن نہیں۔ ٹھوس وجوہات کے ساتھ الیکشن کمیشن فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔ کسی نے ابھی تک تاریخ ہی نہیں دی سب کچھ ہوا میں ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس 90 روز سے تاخیر کا اختیار کہاں سے آیا؟ جھگڑا ہی سارا 90 روز کے اندر الیکشنز کرانے کا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹھوس وجوہات پر آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ تاریخ کا اعلان کئے بغیر آرٹیکل 254 کا سہارا کیسے لیا جاسکتا ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کئی قوانین گھنٹوں میں بنائے گئے۔ آج بھی قانون بنا کر ذمہ داری دے دیتے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج کی پارلیمنٹ کی قانون سازی پر تو ویسے ہی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو انتحابات کی تاریخ دینی چاہیے۔ نوے روز کی مدت مکمل ہورہی ہے میں الیکشن کمیشن کی نیت پر شک نہیں کر رہا۔ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری سے نہیں نکل سکتا۔ عدالت نے گورنر کو تاریخ دینے کا کہا ہے۔ صدر مملکت نے کہہ دیا تاریخ میں دونگا، عدالت کو اس نقطے کو طے کرنا ہوگا، صدر مملکت کو کسی نے تاریخ دینے کا کہا بھی نہیں تھا۔ اٹارنی جنرل نے دلائل مکمل کرلیے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل شہریر سواتی نے دلائل شروع کردیے۔ اپنے دلائل میں انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ضمنی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے۔ آئین کے مطابق گورنر صوبائی انتخابات کی تاریخ دیتا ہے۔ الیکشن کمیشن آئین اور قانون کے مطابق چلتا ہے۔