ویب ڈیسک: اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس سے کہا ہے کہ بلوچ مظاہرین کو دشمنوں کی طرح ٹریٹ نہ کریں۔
ہائیکورٹ میں بلوچ مظاہرین کی گرفتاریوں اور احتجاج کا حق دینے سے روکنے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
درخواست گزار کے وکیل، احتجاج منتظمین، ایس ایس پی آپریشنز عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اظہار برہمی کرتے ہوئے ایس ایس آپریشنز سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے آرڈر دیا کہ ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے ، کسی کو آپ گود میں بٹھاتے ہیں کسی کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں، وہ آئے ہیں ان کو بیٹھنے دیں۔
وکیل درخواست گزار نے استدعا کی کہ 34 گرفتار مظاہرین ابھی بھی جیل میں ہیں جن کی شناخت پریڈ ہونا باقی ہے ، ایک شخص ظہیر لاپتہ ہے اور تھانہ کوہسار کی ایف آئی آر میں نامزد ہے۔
پولیس افسر نے بتایا کہ وہ جیل میں ہیں ضمانتی مچلکے جمع نا ہونے کی وجہ سے رہائی ممکن نہیں ہو سکی۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ حکومت پر الزامات لگانا آسان ہے لیکن مظاہرین میں سےکوئی بھی بلوچ لاپتا نہیں ہے۔
عدالت نے ایس ایس پی آپریشنز سے کہا کہ ان سے زیادہ مظاہرین یہاں آتے رہے آپ ان کو پمپر (شفقت) کرتے رہے، انہوں نے کیا کیا ہے ؟ آپ ان کو دشمنوں کی طرح ٹریٹ نہ کریں۔
وکیل نے کہا کہ عدالت یہ رپورٹ مانگے کہ بلوچ مظاہرین میں سے 50 سے زائد خواتین کو گرفتار کیوں کیا گیا تھا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ بہت کچھ کہنے کو دل کرتا ہے لیکن کہہ نہیں سکتا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے 34 بلوچ طلبہ کی آج ہی شناخت پریڈ کرنے اور اسلام آباد پولیس سے خواتین بلوچ مظاہرین کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 29 دسمبر تک ملتوی کردی۔