نااہلی کا فیصلہ معطل ہونےسے سزا ختم نہیں ہوتی،سپریم کورٹ

نااہلی کا فیصلہ معطل ہونےسے سزا ختم نہیں ہوتی،سپریم کورٹ
کیپشن: آپ کی درخواست میں بہت ہی سنجیدہ الزامات ہیں،جسٹس اطہر من اللہ

ایک نیوز: سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں فیصلے کی معطلی سے متعلق درخواست کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ نااہلی سے متعلق فیصلہ معطل ہونے سے سزا معطل نہیں ہوتی، فیصلہ معطل ہونے سے سزا ختم ہونے کی کوئی عدالتی نظیر پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کی توشہ خانہ فیصلہ معطلی اور لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق 2 الگ درخواستوں کی سماعت قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔ تحریک انصاف کے وکلا سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوئے۔

دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ میں 2 درخواستیں دائر کیں ہیں، بانی پی ٹی آئی کے خلاف فیصلے کی معطلی کی استدعا کی گئی ہے، لیول پلئنگ فیلڈ کے معاملہ میں بھی توہین عدالت دائر کر رکھی ہے۔ قائم قام چیف جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ دونوں درخواستوں کے بارے میں آفس سے معلومات حاصل کرلیتے ہیں۔

وکیل شہباز کھوسہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سپریم کورٹ کی عمارت کے اندر ان کے اسٹاف سے فائل چھین لی گئی اور انہیں دھمکایا گیا۔

قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ معاملہ انتظامی طور پر دیکھا جائے گا، اس میں کوئی آئینی مسئلہ نہیں جو عدالت میں لگایا جائے۔

وکیل لطیف کھوسہ نے اعتراض کیا، ’یہ تو انصاف سے رسائی سے انکار ہے‘۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے، ’آپکی درخواست کے اندر بہت ہی سنجیدہ الزامات ہیں‘۔

 لطیف کھوسہ بولے، ’اگر بروقت کیس جمع ہوتا تو آج اتنی ایمرجنسی نہ ہوتی‘۔

قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 11 بجے تک آفس سے معلومات آنے پر دیکھیں گے۔

قائم مقام چیف جسٹس نے الیکشن میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے معاملے سے متعلق ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کی درخواست شاید کل لگ جائے۔عدالت نے توشہ خانہ فیصلہ معطلی کی درخواست 3 رکنی بینچ کی عدم دستیابی پرفوری سننے کی استدعا مسترد کردی۔

بعد ازاں، وکیل شہباز کھوسہ معمول کے مقدمات مکمل ہونے کے بعد روسٹرم پر آگئے اور عدالت سے استدعا کی کہ توشہ خانہ کیس میں نااہلی ختم کرنے کی درخواست کو 3 رکنی بنچ کے سامنے مقرر کر دیں۔

قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد میں صرف 2 ہی ججز دستیاب ہیں، توشہ خانہ کیس کو کم از کم 3 رکنی بینچ کو سننا چاہیے،اس ہفتے توشہ خانہ نااہلی کیس کی سماعت ممکن نہیں ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے، ’نااہلی سے متعلق فیصلہ معطل ہونے سے سزا معطل نہیں ہوتی، ہمارے سامنے درخواست ہے کہ توشہ خانہ کیس کا فیصلہ معطل ہوا تو سزا بھی ختم ہو، فیصلہ معطل ہونے سے سزا ختم ہونے کی کوئی عدالتی نظیر پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہے‘۔

وکیل شہباز کھوسہ نے دلائل دیے کہ عدالتی نظیریں موجود ہیں کہ جب مخدوم جاوید ہاشمی کے خلاف فیصلے کے ساتھ سزا بھی ختم کی گئی تھی، پوری قوم اس کیس کو دیکھ رہی ہے جس میں بانی پی ٹی آئی کو 3 سال نااہل کیا گیا، عدالت دیکھے کہ کیسے ہمایوں دلاور نے ایک ہی دن میں 5 بار سماعت کر کے سزا سنائی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے، ’آپ ایسی درخواست لے کر آگئے جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی‘۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس میں کہا، ’آپ کی درخواست کو 2 رکنی بینچ صرف خارج کر سکتا ہے، کر دیں؟ 2 رکنی بینچ آپ کو عبوری ریلیف بھی نہیں دے سکتا کیونکہ ہائیکورٹ میں ڈویژن بینچ کا فیصلہ ہے، کیا پتہ کہ یہ کیس اہم نکات پر ہو اور اس کی سماعت 5 رکنی بینچ کرے، اگلے ہفتے قاضی صاحب بھی آ جائیں گے۔

وکیل شہباز کھوسہ نے کہا کہ عدالت ججز کو بلا کر ابھی بھی بینچ بنا سکتی ہے۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ ججز یہاں دستیاب نہیں آپ بتا دیں کس کو بٹھا کر سماعت کریں۔

قائم مقام چیف جسٹس کے ان ریمارکس کے بعد ججز کمرہ عدالت سے اُٹھ کر چلے گئے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل 23 دسمبر کو عمران خان نے سپریم کورٹ میں فیصلہ معطلی سے متعلق درخواست دائر کی تھی مگر رجسٹرار آفس نے اعتراض عائد کردیا تھا۔ جس کے بعد گزشتہ روز بانی پی ٹی آئی کے وکلا نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کرکے دوبارہ اپیل دائر کی تھی اور ٹرائل کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا کی تھی۔