ایک نیوز :سردار اخترمینگل نے کہا کہ جن لوگوں نے بیرون ملک جائیداد اور جزیرے خرید رکھے ہیں یہ پارلیمنٹ ان لوگوں کو بلا کر پوچھے تو سہی کون سے پنڈ کی زمین بیچ کر جزیرے خریدےاگر آپ ان کو بلا نہیں سکتے تو مان لیں یہ سب ڈرامہ ہے جو ختم نہیں ہوگا ۔
تفصیلات کےمطابق اخترمینگل نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے بننے سے آج تک اس کی کیا حالت کردی گئی ہے۔آمروں نے آئین کو بوٹوں تلے روند دیا۔ کیا کسی ایک امر کو بھی ہم انصاف کے کٹہرے میں لائے۔کیا ہم نے جنرل سے سپاہی تک کسی سے پوچھا کے آئین سے کیوں کھلواڑ کیا؟جب ہمیں ضرورت پڑتی ہے تو آئین یاد آتاہے۔جب ضرورت ہوتی ہے تو بلوچستان یاد آجاتا ہے اور حکمران بلوچستان کے لئے آنسو بہاتے ہیں ۔اس آئین کے تحت فوجی اور دیگر اداروں کے ملازم حلف اٹھاتے ہیں۔ کوئی ٹریفک سگنل توڑ دے تو اسے جرمانہ کیا جاتا ہے مگر آئین کی خلاف ورزی پر سزا نہیں ملتی۔
اختر مینگل نے مزید کہا کہ وزیراعظم کو 180 ووٹ ملے ہیں کم از کم اب 180 لاپتہ افراد کو تو بازیاب کرادیں جتنی خوشی آپ کو ہوئی ہے ڈیسک بجائے ہیں اتنی ہی خوشی لاپتہ افراد کے لواحقین کو دیدیں۔بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کمیشن بنایا گیا۔لاپتہ افراد کے لواحقین،بچوں اور عورتوں نے کراچی سے اسلام آباد تک پیدل مارچ کیا۔ان مظلوم افراد کی آواز پر کسی نے کان نہ دھرے اور نہ ایکشن لیا۔لوگوں کو امید تھی کہ کمیشن لاپتہ افراد بازیاب کرائے گا۔
ان کا مزیدکہناتھا کہ بلاول بھٹو ،بینظیر بھٹو اور میں اپنے والد سردار عطا اللہ مینگل کی جگہ نہیں لے سکتا۔ ان بزرگوں کی قربانیوں کی بدولت آج ہمیں پہچانا جاتا ہے۔ہمارے ملک میں تین مارشل لا لگے اور ایک مارشل لا نے ملک کا بڑا حصہ گنوا دیا۔ایک آمر نے کہا کہ وہاں ماریں گے جہاں پتہ بھی نہیں چلے گا۔ہم آپ اور ملک کی عدلیہ نے اس آمر کے غیر آئینی عمل کو سٹیمپ لگا کر آئین کی شکل کردی۔کسی نے یہ دریافت نہیں کیا کہ عدلیہ نے کس بنیاد پر غیر آئینی اقدامات کی توثیق کی۔