ایک نیوز:ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایک ساتھ انتخابات اور 4 اپریل کے فیصلے پر عمل درآمدکیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت مذاکرات پر مجبور نہیں کرسکتی صرف آئین پرعمل چاہتی ہے،کوئی ہدایت جاری کر رہے ہیں نہ کوئی ٹائم لائن ، عدالت مناسب حکم نامہ جاری کرےگی۔
تفصیلات کے مطابق پنجاب اور کے پی سمیت ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کے حوالے سے کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ دیگر ججز میں جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خوشخبری! پیٹرولیم مصنوعات کے حوالے سے بڑی خبر
آج سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ 19اپریل کو حکومت اور اپوزیشن میں پہلا رابطہ ہوا تھا،26 اپریل کو ملاقات پر اتفاق ہوا تھا،25 اپریل کو ایاز صادق اور سعد رفیق کی اسد قیصر سے ملاقات ہوئی،اسد قیصر نے بتایا کہ وہ ملاقات کیلئے بااختیار نہیں ہیں،کل حکومتی اتحاد کی ملاقات ہوئی ،دو جماعتوں کو مذاکرات پر اعتراض تھا لیکن راستہ نکالا گیا،چیئرمین سینیٹ نے حکومت اور اپوزیشن کو خطوط لکھے ہیں،چیئرمین سینیٹ نے حکومت اور اپوزیشن سے 4 ، 4نام مانگے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا اسد قیصر کے بعد کیا کوشش کی گئی کہ کون مذاکرات کیلئے بااختیار ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہاکہ منگل کو میڈیا سے معلوم ہوا کہ شاہ محمود قریشی مذاکرات کیلئے بااختیار ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ 19 اپریل کو چیمبر میں آپ سے ملاقات ہوئی،ہمارے ایک ساتھی کی عدم دستیابی کے باعث 4بجے سماعت نہیں ہوئی تھی ،فاروق نائیک نے کہا تھا چیئرمین سینٹ سہولت کاری کریں گے،چیئرمین سینیٹ نہ حکومت کے نمایندے ہیں نہ اپوزیشن کے،حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو خود اقدام اٹھاتی، مذاکرات کرنے پر عدالت مجبور نہیں کر سکتی،عدالت صرف آئین پر عمل چاہتی ہے تا کہ تنازعہ کا حل نکلے،عدالت کو کوئی وضاحت نہیں چاہیئے صرف حل بتائیں،چیئرمین سینٹ اجلاس بلائیں گے اس میں بھی وقت لگے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ سینیٹ وفاق کی علامت ہے اس لئے چیئرمین سینیٹ کو کہا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا چیئرمین سینیٹ کو کس حیثیت سے رابطہ کیا گیا؟
فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ تمام حکومتی اتحادی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات پر آمادہ ہیں،سینیٹ واحد ادارہ ہے جہاں تمام جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے،چیئرمین سینیٹ کا کردار صرف سہولت فراہم کرنا ہے، مذاکرات سیاسی جماعتوں، کمیٹیوں نے ہی کرنے ہیں،سیاسی ایشو ہے اس لئے سیاسی قائدین کو ہی مسئلہ حل کرنے دیا جائے،سیاست کا مستقبل سیاستدانوں کو ہی طے کرنے دیا جائے۔
اس دوران تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی روسٹرم پر آگئے۔
شاہ محمود قریشی نے کہاکہ حکومت کے اصرار پر عدالت نے سیاسی اتفاق رائے کیلئے موقع دیا تھا،تمام جماعتوں کی سیاسی قیادت عدالت میں پیش ہوئی،پی ڈی ایم میں آج بھی مذاکرات پر اتفاق رائے نہیں،عدالتی حکم کو پی ٹی آئی نے سنجیدگی سے لیا،سپریم کورٹ کا 14 مئی کا فیصلہ حتمی ہے،عدالت نے قومی مفاد میں سیاسی جماعتوں کو موقع فراہم کیا،تحریک انصاف کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیاگیا۔
شاہ محمود قریشی نے کہاکہ پی ٹی آئی نے مجھے، فواد چودھری اور بیرسٹر علی ظفر کو مذاکرات کیلئے نامزد کیا،اسدقیصر نے حکومت کو مجھ سے رابطہ کرنے کاکہا،آج تک مجھ سے کسی نے رابطہ نہیں کیا،چیئرمین سینیٹ نے گزشتہ روز فون پر کہا وزیراعظم کے اصرار پر رابطہ کررہا ہوں،چیئرمین سینیٹ سے کہا سپریم کورٹ میں جوتجاویز دی تھیں وہ کہاں ہیں؟
پی ٹی آئی رہنما نے کہاکہ سینیٹ کمیٹی صرف تاخیری حربہ ہے، قومی اسمبلی اجلاس بلا کر رولز کی خلاف ورزی کی گئی، زیرسماعت معاملے کو پارلیمان میں زیربحث نہیں لایا جاسکتا۔دھرنے کے دوران کہا تھا پارلیمان میرا سیاسی کعبہ ہے،پارلیمان میں دھمکی آمیز لہجے اور زبان سن کر شرمندگی ہوئی، پارلیمان میں کہا گیا کہ توہین پارلیمنٹ ہوئی ہے،حکومت سنجیدہ ہے تو ابھی مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ سیاسی باتیں ہیں،ہم کیس کے بارے میں بات کر رہے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ سنجیدگی کیساتھ رابطہ نہیں کیا گیا؟
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پی ٹی آئی بات چیت کیلئےسنجیدہ ہے،ہم آج ہی بیٹھنے کو تیار ہے۔حکومت نے آئین اور عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی کا فیصلہ کر رکھا ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آئین اور پارلیمنٹ کو کون نیچا دکھا رہا ہے، اس پر نہیں جانا چاہتا،شاہ محمود قریشی نے جو تقریر کی ایسے اتفاق رائے نہیں ہوسکتا،چیئرمین سینیٹ کو نام دیں کل ہی بیٹھنے کو تیار ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نےریمارکس دیئے کہ مذاکرات کے معاملے میں صبر اور تحمل سے کام لینا ہوگا۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کو سینیٹ نے مذاکرات پر آمادہ کیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کا کوئی حکم نہیں صرف تجویز ہے،قومی مفاد اور آئین کے تحفظ کیلئے اتفاق نہ ہوا تو جیسا ہے ویسے ہی چلے گا،نام دینے میں کیا سائنس ہے،کیا حکومت نے اپنے 5 نام دئیے ہیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پی ٹی آئی چاہے تو 3 نام دے دے،ورنہ پانچ لازمی دیں،حکومت کے نام تین چار گھنٹے میں فائنل ہو جائیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ فاروق نائیک کو بھی مذاکرات میں رکھا جائے تا کہ معاملہ ٹھنڈا رکھا جائے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ نے صرف سینیٹرز کے نام مانگے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت نے نیک نیتی دکھانے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں،لگتا ہے حکومت صرف پاس پاس کھیل رہی ہے،آج توقع تھی کہ دونوں فریقین کی ملاقات ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کوشش ہوگی کہ دونوں کمیٹیوں کی آج پہلی ملاقات ہوجائے۔
وکیل شاہ خاور نے کہا کہ دونوں فریقین متفق ہوں تو حل نکل آئے گا۔
فوادچودھری نے کہا کہ سپریم کورٹ بھی آئین تبدیل نہیں کرسکتی،سیاسی جماعتوں کو الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں ملنا چاہیے،ایسے ہوا تو کوئی بھی حکومت الیکشن کیلئے فنڈز جاری نہیں کرے گی،پارلیمان اور عدالت نہیں سپریم کورٹ صرف آئین ہے،سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے بھی آئین تبدیل نہیں کرسکتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ مذاکرات تو پہلے ہی ہوجانے چاہیے تھے،عدالتی فیصلے، آئین اور قانون موجود ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ ماحول سازگار ہو گا تو مذاکرات ممکن ہوں گے،مذاکرات کے لیے وقت مقرر کرنا لازمی ہے،مذاکرات میں ںاخیر سے مقصد فوت ہو جائے گا۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بیٹھیں گے تو بات ہو گی،گلے شکوے ہوں گے، حل بھی نکلے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1977 میں سیاسی حالات اتنے کشیدہ نہیں تھے جتنے آج ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاستدانوں کو خود سےمسائل کا حل نکالنا چاہیے، مذکرات کے ذریعے حل نہ نکلا تو آئین بھی موجود ہے اور ہمارا فیصلہ بھی موجود ہے،ہم نہ کوئی ہدایت جای کر رہے ہیں اور نہ ہی کوئی ٹائم لائن جاری کر رہے ہیں،اس کیس کا تحریری فیصلہ جاری کریں گے،عدالت مناسب حکمنامہ جاری کرے گی۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ 4 اپریل کو تین رکنی بینچ نے حکومت کو 27 اپریل تک انتخابات کے لیے 21 ارب روپےکے فنڈز فراہم کرنےکی رپورٹ جمع کرانےکا حکم دیا تھا۔الیکشن کے لیے 21 ارب روپے جاری کرنے کی تیسری مہلت بھی گزر گئی ہے، سپریم کورٹ نے حکومت سے فنڈز جاری کرنےکی رپورٹ آج طلب کر رکھی ہے۔20 اپریل کو سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی اور حکومت کو مذاکرات کا موقع دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیےتھےکہ پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں بدلےگا۔رجسٹرار آفس نے چیف جسٹس کی طبیعت کی خرابی کی بنیاد پر گزشتہ روز بینچ نمبر ایک کے سامنے مقدمات ڈی لسٹ کیے اور بعد میں نیا روسٹر جاری کیا تھا۔