ایک نیوز:صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری ،پی ٹی آئی کے وکیل نیازاحمد ،امتیاز صدیقی نےپریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے جوابات سپریم کورٹ میں جمع کرادیئے۔
صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری کاجواب میں کہنا تھاکہ پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون عدلیہ آزادی کے منافی ہے۔پارلیمنٹ قانون سازی کے آئینی اختیار کی خلاف ورزی کی۔چیف جسٹس اختیارات پر تجاویز عدلیہ کی آزادی سے متعلقہ ہے۔پریکٹس پروسیجرل قانون کے خلاف درخواستیں قابل سماعت ہیں۔پریکٹس پروسیجرل قانون کو غیر آئینی غیر قانون قرار دیکر کالعدم قرار دیا جائے۔
پی ٹی آئی کے وکیل نیازاحمد نیازی کا جواب میں کہنا تھاکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے چیف جسٹس پاکستان کو آئینی مینڈیٹ سے محروم کیا گیا۔پریکٹس پروسیجرل عدلیہ کے معاملات پر تجاویز ہے۔آرٹیکل 184/3 میں اپیل کا حق صرف آئینی ترمیم سے دیا جا سکتا ہے ۔آئین کے ترمیم کے دو تہائی اکثریت درکار ہے۔جب پریکٹس پروسیجرل قانون بنا پارلیمان کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں تھی۔یہ قانون منظور کرکے ارکان پارلیمان نے اپنے آئینی حلف کی خلاف ورزی کی۔پریکٹس پروسیجرل قانون کیخلاف درخواستوں کومنظور کیا جائے۔پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون کو کالعدم قرار دیا جائے۔
صحافی چودھری غلام حسین اور سمیع ابراہیم کے وکیل امتیاز صدیقی کاجواب میں کہنا تھاکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو کالعدم قرار دیا جائے۔ قانون آئین سے متصادم ہے۔ یہ قانون عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے۔ عدلیہ کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے یہ درخواستیں آرٹیکل 184 تین کے تحت قابل سماعت ہیں۔
وکیل امتیاز صدیقی نے فل کورٹ کے سوالات کے جوابات بھی جمع کرا دیے۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت عدلیہ، ایگزیکٹو اور مقننہ ریاست کے الگ الگ عضو ہیں۔ پارلیمنٹ آئینی حدود کے اندر رہ کر سپریم کورٹ کے بارے میں قانون سازی کر سکتی ہے۔ پارلیمنٹ کے پاس سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات سے متعلق قانون سازی کرنے کا آئینی اختیار نہیں۔ سپریم کورٹ رولز آئین کے تحت بنے اور عام قانون سازی سے ان کو بدلا نہیں جا سکتا۔
وکیل امتیاز صدیقی کے مطابق جب تک قانون کی بنیاد تبدیل نا ہو تب تک پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے ہوئی قانون سازی کی تشریح کی پابند ہے، ایکٹ آف پارلیمنٹ سے آئینی ضابطے تبدیل نہیں ہو سکتے، بھارت میں کسی ریاستی ادارے کو عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کا حق نہیں۔