آخری گولی نہیں، آخری سانس تک لڑنے والے مردمجاہد نائیک سیف علی جنوعہ شہید (ہلال کشمیر)

آخری گولی نہیں، آخری سانس تک لڑنے والے مردمجاہد نائیک سیف علی جنوعہ شہید (ہلال کشمیر)
کیپشن: Not the last shot, martyr Naik Saif Ali Janua Shaheed (Hilal Kashmir) who fought till his last breath.

ایک نیوز: پاک فوج کے بہادر سپوت نائیک سیف علی جنجوعہ نے 1948کی پاک، بھارت جنگ کے دوران متعدد بھارتی حملوں کے خلاف بہادری سے پیر کلیوہ پوسٹ کا دفاع کیا۔ 

تفصیلات کے مطابق آزاد جموں و کشمیر کے بہادر سپوت نائیک سیف علی جنجوعہ 23 اپریل 1922 کو کھنڈہار تحصیل نکیال آزاد جموں و کشمیر میں پیدا ہوئے۔ 1947 میں آپ اپنے وطن واپس آئے اور سردار فتح محمد کریلوی کی ''حیدری فورس''میں شامل ہوگئے۔ 

یکم جنوری 1948 میں حیدری فورس کو ''شیر ریاستی بٹالین''کا نام دے دیا گیا۔ سیف علی جنجوعہ کی قابلیت کے پیشِ نظر اُنھیں نائیک کا عہدہ دے دیا اور انہیں بدھا کھنہ کے مقام پر دشمن کے خلاف دفاع وطن کا حکم دے دیا۔ 

بھارتی فوج سے پیر کلیوہ محاذ پر کئی دن سے جھڑپیں جاری تھیں۔ 18 آزاد کشمیر رجمنٹ پہلے ہی حملے میں دریائے پونچھ عبور کر کے پیش قدمی کرتے ہوئے پیر کلیوہ پہاڑی پر واقع پوسٹ پر اپنا قبضہ مضبوط کر چکی تھی کیونکہ دفاعی لحاظ سے یہ بہت اہم پوسٹ تھی۔ 

اس پر دوبارہ قبضے کے لیے دشمن بار بار حملہ آورہوا مگر ناکام رہا۔ 26اکتوبر 1948کو دشمن نے اپنے ایک انفنٹری بریگیڈ کے ذریعے، جسے بھاری توپ خانے اور ٹینکوں کے علاوہ ائیر فورس کی مدد بھی حاصل تھی، پیر کلیوہ پوسٹ پر قبضہ کے لیے حملہ کر دیا۔ 

یہاں گھمسان کی جنگ سارا دن جاری رہی۔ اس پلاٹون کو نائیک سیف علی جنجوعہ کمان کر رہے تھے۔ نائیک سیف علی نے تعداد اور وسائل کی کمی کے باوجود اپنی مشین گن سے ایک بھارتی طیارہ مار گرایا۔ فضائی بمباری اور شیلنگ کے سبب نائیک سیف علی جنجوعہ کی دونوں ٹانگیں شدید زخمی ہو گئیں مگر آپ نے اپنی مشین گن سے فائرنگ جاری رکھی۔ 

زخموں سے چور ہونے کے باوجود آپ نے اپنی پلاٹون کی راہنمائی جاری رکھی اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔ نائیک سیف علی نے پھر بھی ہمت نہ ہاری،اسی زخمی حالت میں لاشوں اور زخمیوں تک پہنچے اور ان کا اسلحہ اکٹھا کر کے اپنے زندہ بچ جانے والے ساتھیوں تک پہنچایا۔ دشمن کے تازہ حملے کا سامنا کرنے کی غرض سے آپ نے باقی ساتھیوں کو پھر سے منظم کیا۔ 

آپ کو یہ احساس تھا کہ آپ اور آپ کے ساتھیوں نے آخری گولی نہیں بلکہ آخری سانس تک لڑنا ہے۔ آپ مٹھی بھر مجاہدین کے ساتھ دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔ بھارتی توپوں کی جانب سے گولہ باری میں شدت آ گئی تھی۔ اس مقابلے کے دوران دُشمن کاگولہ آپ کی چیک پوسٹ کے قریب آگرا اور آپ شدید زخمی ہو گئے۔ 

پاک فوج کے اس بہادر سپوت نے مادرِ وطن کے دِفاع کو یقینی بناتے ہوئے،26اکتوبر 1948ء کوجامِ شہادت نوش کیا۔ دُشمن اس پوسٹ پر قبضہ کرنے میں ناکام رہا اور بھاری جانی نقصان اُٹھاکر پسپا ہوا۔ 14 مارچ 1949 حکومتِ آزاد جموں و کشمیر کی ڈیفنس کونسل نے بعدازشہادت آپ کو آزادجموں و کشمیر کا سب سے بڑا عسکری اعزاز”ہلال کشمیر“ دیئے جانے کا اعلان کیا۔ بعدازاں حکومت پاکستان نے 1995 میں ہلال کشمیر کو نشان حیدر کے مساوی قرار دیا۔