ایک نیوز نیوز: اندراج مقدمہ کی درخواست پر سیشن کورٹ مکمل بااختیار، پولیس سے رپورٹ طلب اور فریقین کے بیانات ریکارڈ کرسکے گی، لاہور ہائیکورٹ نے قانونی نکتہ طے کردیا۔
رپورٹ کے مطابق عدالت نے درخواست گزار کی مقدمہ درج کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے جسٹس آف پیس کا فیصلہ درست قرار دے دیا ۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سردار سرفراز ڈوگر نے قانونی نکتہ طے کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اندارج مقدمہ کی درخواست پر سیشن کورٹ کو پولیس سے رپورٹ مانگنے اور فریقین کے بیانات ریکارڈ کرنے کا مکمل اختیار ہے ۔
جسٹس سردار سرفراز ڈوگر نے غلام ڈوگر کی درخواست پر چودہ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہا کہ اندارج مقدمہ کی درخواست میں سیشن کورٹ کو پولیس رپورٹ اور دوسرے فریق کو سننے کا مکمل اختیار ہے ۔
کریمنل پروسیجر آرڈیننس 2002 کے سب سیکشن 6کے تحت جسٹس آف پیس کو اندارج مقدمہ کی درخواست پر پولیس رپورٹ اور دوسرے فریق کو سننے کا اختیار ہے۔ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ درخواست گزار صرف بلیک میل کرنے کےلیے مقدمہ درج کرانا چاہتا ہے ۔
اندارج مقدمہ کی درخواست پر جسٹس آف پیس بغیر تحقیقات کے مقدمہ درج کرنے کا حکم کیسے دے سکتا ہے ؟درخواست گزار غلام سرور نے 2020 میں اسلحے کے زور پر پندرہ بھینسیں اور سونا چھینے کے الزامات پر تین افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی تھی جس پر پولیس کی جانب سے مقدمہ درج نہ ہونے پر درخواست گزار نے اندارج مقدمہ کی درخواست دائر کی۔ تاہم جسٹس آف پیس نے پولیس رپورٹ اور بیانات کی روشنی میں مقدمہ درج کرنے کی درخواست مسترد کردی۔
درخواست گزار کے مطابق جسٹس آف پیس کو اندارج مقدمہ کی درخواست پر پولیس رپورٹ اور بیانات ریکارڈ کرنے کا اختیار نہیں ۔ جسٹس آف پیس نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے انکوائری کی ۔ جسٹس آف پیس کا اقدام غیر قانونی ہے لہزا عدالت مقدمہ درج کرنے کا حکم دے۔