امیر کویت، امیر قطر نے وزیر اعظم شہباز کی  دورہ پاکستان کی دعوت قبول کرلی

امیر کویت، امیر قطر نے وزیر اعظم شہباز کی دورہ پاکستان کی دعوت قبول کرلی
کیپشن: Emir of Kuwait, Emir of Qatar accepted Prime Minister Shehbaz's invitation to visit Pakistan


ویب ڈیسک: امیر کویت اور امیر قطر نے وزیر اعظم شہباز شریف  کی  دورہ پاکستان کی دعوت قبول کرلی۔ 

سفارتی محاذ پر پاکستان کی  مثبت پیشرفت کا سلسلہ جاری  ہے۔ امیر کویت اور امیر قطر نے وزیراعظم محمد شہباز شریف کی دورہء پاکستان کی دعوت کو قبول کر لیا۔

وزیر اعظم محمد شہباز شریف سےپاکستان میں تعینات کویت اور قطر کے سفراء نے  الگ الگ ملاقات کی۔

  پاکستان میں تعینات کویت کے سفیر  ناصر عبدالرحمن جاسر المطیری نے وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات کی۔ انہوں نے وزیراعظم کو کویت کے امیر شیخ مشعل الاحمد الجابر الصباح کا ایک خط پیش کیا جس میں وزیراعظم کی طرف سے امیر کو باہمی طور پر مناسب تاریخوں پر دورہ پاکستان کی دعوت کو قبول کرنے کا پیغام دیا گیا ہے۔ 

خط کو وصول کرتے ہوئے  وزیراعظم نے 28 اپریل 2024 کو ریاض میں ورلڈ اکنامک فورم کے خصوصی اجلاس کی سائیڈ لائینز پر امیر کویت سے ہوئی اپنی حالیہ ملاقات کا ذکر کیا ۔ 

وزیراعظم نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ پاکستان- کویت مشترکہ وزارتی کمیشن کا اگلا اجلاس 28 سے 30 مئی 2024 کو کویت میں منعقد ہو گا۔  وزیراعظم نے امیر کویت کے آنے والے دورہء پاکستان کے حوالے سے بھرپور تیاری پر زور دیا تا کہ دورہ سے  باہمی فائدہ مند نتائج کو یقینی بنایا جا سکے ۔

وزیراعظم سے پاکستان میں تعینات قطر کے سفیر  مبارک علی عیسیٰ الخطر نے بھی ملاقات کی۔ قطری سفیر نے وزیر اعظم کو قطر کے امیر  شیخ تمیم بن حمد الثانی کی طرف سے ایک خط پہنچایا جس میں وزیر اعظم کی طرف سے باہمی طور پر مناسب تاریخوں پر پاکستان کا سرکاری دورہ کرنے کی دعوت کو قبول کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم نے قطر کے امیر عزت مآب کو تہہ دل سے تہنیتی پیغام پہنچایا۔ 

وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان قطر کے ساتھ اپنے تاریخی برادرانہ تعلقات کو دل کی گہرائیوں سے قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور دونوں برادر ممالک کے درمیان باہمی فائدہ مند تعاون کو مزید گہرا کرنے کے پاکستان کے پختہ عزم کا اعادہ کیا۔

 انہوں نے کہا کہ دونوں فریقوں کو دونوں دارالحکومتوں کے درمیان وفود کے تبادلے کے ساتھ ہز ہائینس کے دورے کی تیاری شروع کرنی چاہیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اعلیٰ سطح کا دورہ نتیجہ خیز اور کامیاب ہو اور اس کے نتائج دونوں ممالک کے لیے باہمی طور پر فائدہ مند ہوں۔