ایک نیوز :سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس سے متعلق جوڈیشل کمیشن کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ جاری کردیا ۔سپریم کورٹ نے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا وفاقی حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کردیا ۔
تفصیلات کے مطابق مبینہ آڈیو لیکس کی انکوائری کیلئے قائم جوڈیشل کمیشن کے خلاف 4 درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔سیریم کورٹ نے درخواستوں پر تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے تمام درخواستوں میں فریقین کو نوٹسز ارسال کردیے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو بھی نوٹس جاری کردیا جبکہ مزید سماعت 31 مئی کو ہوگی۔
اس سے قبل مبینہ آڈیو لیکس پر وفاقی حکومت کی جانب سے بنائے گئے تحقیقاتی کمیشن کے خلاف درخواستوں پر چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری، ریاض حنیف راہی اور مقتدر شبیر کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہوتے ہی اٹارنی جنرل عثمان منصور روسٹرم پر آگئے اور انہوں نے لارجر بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھا دیا۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ حکومت کسی جج کو اپنی مرضی کے مطابق بینچ میں نہیں بٹھا سکتی۔ ہم نے سوال پوچھا تھا کہ 184 بی میں لکھا ہے کم از کم 5 ججز کا بینچ ہو۔ اگر آپ نے ہم سے مشورہ کیا ہوتا تو ہم آپ کو بتاتے۔ 9 مئی کے واقعے کا فائدہ یہ ہوا کہ جوڈیشری کے خلاف جو بیان بازی ہو رہی تھی وہ ختم ہو گئی۔ 9 مئی کے سانحے کے بعد عدلیہ کے خلاف بیان بازی بند ہو گئی۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے انتظامی اختیار میں مداخلت نہ کریں ۔ہم حکومت کا مکمل احترام کرتے ہیں۔ عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے۔ حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی قانون سازی جلدی میں کی۔ حکومت ہم سے مشورہ کرتی تو کوئی بہتر راستہ دکھاتے ۔ آپ نے ضمانت اور فیملی کیسز کو بھی اس قانون سازی کا حصہ بنا دیا۔
دوران سماعت وفاقی حکومت نے بینچ میں چیف جسٹس کی شمولیت پر اعتراض اٹھا دیا۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کی توجہ شق 6 کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمیشن کے لیے جج کی نامزدگی کا فورم چیف جسٹس پاکستان کا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ چیف جسٹس خود کو کمیشن میں نامزد کریں۔ نہ ہی چیف جسٹس وفاقی حکومت کی چوائس کے پابند ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے وفاقی حکومت کی ہدایات ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت کیسے سپریم کورٹ کے ججز کو اپنے مقاصد کے لیے منتخب کر سکتی ہے۔اٹارنی جنرل صاحب عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے۔ بہت ہوگیا ہے اٹارنی جنرل صاحب آپ بیٹھ جائیں۔ وفاقی حکومت سے گزارش کریں آئینی روایات کا احترام کریں۔ سپریم کورٹ کے جج کی نامزدگی کا فورم صرف چیف جسٹس آف پاکستان ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملے کی وضاحت دی جا سکتی ہے.
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وفاقی حکومت عدلیہ کے معاملات میں کوارٹرز کا خیال کرے۔ انکوائری کمیشن میں حکومت نے خود ججز تجویز کیے۔ اس سے پہلے 3 نوٹیفیکیشن میں حکومت نے ججز تجویز کیے، جنہیں بعد میں واپس لیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایکٹ 2017ء کو چیلنج نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 1956ء ایکٹ آئین کے احترام کی بات کرتا ہے۔ اس نکتے پر بعد میں آئیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس نکتے پر ابھی تیار ہیں۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معذرت سے کہتا ہوں حکومت نے ججز کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ اختیارات سے متعلق قانون میں حکومت نے 5ججز کا بینچ بنانے کا کہہ دیا۔ نئے قانون میں اپیل کے لیے 5 سے بھی بڑا بینچ بنانے کا کہہ دیا ۔ ہمارے پاس ججز کی تعداد کی کمی ہے ۔ حکومت نے جلد بازی میں عدلیہ کے بارے میں قانون سازی کی۔ حکومت قانون ضرور بنائے لیکن مشاورت کرے ۔ حکومت بتائے اس نے سپریم کورٹ کے حوالے سے قانون سازی کرتے ہوئے کس سے مشورہ کیا ۔ ہم سے مشورہ کرتےتو ضرور مشورہ دیتے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان تمام امور کا حل ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت مسائل حل کرے تو ہم بھی ریلیف دیں گے۔ سپریم کورٹ کے انتظامی امور میں پوچھے بغیر مداخلت ہوگی تو یہی ہوگا ۔ ہمیں احساس ہے کہ آپ حکومت پاکستان کے وکیل ہیں ۔ تمام اداروں کو مکمل احترام ملنا چاہیے ۔ آئین اختیارات تقسیم کی بات کرتا ہے۔عدلیہ وفاقی حکومت کا حصہ نہیں ، ہم انا کی نہیں آئین کی بات کررہے ہیں۔چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ ہر بات کھل کر قانون میں نہیں دی گئی ہوتی۔ آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے۔ آرٹیکل 175 کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے عدلیہ میں تقسیم کی کوشش نہیں کی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حکومت نے اگر نہیں کی تو بھی ایسا ہوا ضرور۔ فل کورٹ کی استدعا خود عدلیہ اصلاحات بل کے خلاف ہے۔ اٹارنی جنرل نفیس آدمی ہیں، آپ کا اور حکومت کا احترام کرتے ہیں۔ اب شدت سے سب کو احساس ہو رہا ہے کہ اداروں کا احترام ضروری ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدلیہ اصلاحات بل کس کے مشورے سے لایا گیا؟۔ حکومت نے فیملی سمیت ہر مقدمہ ہی کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدلیہ اصلاحات بل میں بھی فل کورٹ کی استدعا کی تھی۔
اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے پر صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے پرانے فیصلوں کا حوالہ دیا۔ وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کسی بھی حاضر سروس جج کو کمیشن میں تعینات کرنے سے پہلے چیف جسٹس کی مشاورت ضروری ہے۔ کسی پرائیویٹ شخص کو بھی کمیشن میں لگانے سے پہلے مشاورت ضروری ہے کیونکہ اس نے جوڈیشل کارروائی کرنی ہوتی ہے۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ حکومت پہلے تسلیم کرے کہ آڈیوز اس کے اداروں نے ریکارڈ کرکے لیک کی ہیں اگر آڈیوز کی ریکارڈنگ قانون کے مطابق ہے تو اعتراض نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ فرض کیا گیا ہے کہ ریکارڈنگ قانون کے مطابق کی گئی،سپریم کورٹ کا بینظیر بھٹو کیس میں 1998 کا فیصلہ کچھ اور کہتا ہے،فیصلے کے مطابق کالز کی ریکارڈنگ عدالت کی اجازت سے ہی ہوسکتی ہیں،ججز کی آڈیوز کو بطور شواہد تسلیم کرکےمس کنڈکٹ کا تعین کیا جا رہا ہے، ججز کیخلاف کارروائی کونسا فورم کر سکتا ہے؟
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ آرٹیکل 209 کے تحت ججز کیخلاف کارروائی سپریم جوڈیشل کونسل کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا اب کمیشن سفارش کرےگا کہ جج مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا ہے؟فیئر ٹرائل ایکٹ بھی ریکارڈنگ کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ فیئرٹرائل ایکٹ کے مطابق مشکوک افراد کی ریکارڈنگ کی جا سکتی ہے،ریکارڈنگ کیلئے متعلقہ پولیس یا حساس ادارے کا مجاز افسر درخواست دےسکتا ہے،مشکوک افراد کا متعلقہ کیس سے تعلق ہونا بھی ضروری ہے،قانون کے مطابق جاسوسی کے اجازت نامہ پر دستخط ہائیکورٹ کا جج کر سکتا ہے،ریکارڈنگ پیکا ایکٹ 2016 اور ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ 1996 کی بھی خلاف ورزی ہے،بینظیر بھٹو کیس بھی 1996 کے قانون کی خلاف ورزی پر بنا تھا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ سب سے اہم سوال عدلیہ کی آزادی کا ہے،کالز ریکارڈنگ آئین کے آرٹیکل 14 کی بھی خلاف ورزی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتےہوئے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں بھی قرار دیا گیا کہ ججز کی جاسوسی قانون کےخلاف ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ حکومت آڈیو لیکس کو قانونی قرار دے رہی ہے،عدالتی فیصلوں کی موجودگی میں حکومتی موقف کی کیا اہمیت ہے؟حکومت کے مطابق آڈیوز درست ہیں تو کمیشن بنانے کا کیا مقصد ہے؟
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ قرار دے چکی تصدیق کے بغیر آڈیوز، ویڈیوز نشر نہیں کی جا سکتی،اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہو رہا،ہائیکورٹ نے جاسوسی پر مبنی مواد بھی نشر کرنے سے روک رکھا ہے،آڈیوز کی تصدیق کا کسی کو خیال ہی نہیں،آڈیو لیک ہوتی ہے، میڈیا نشتر اور وزراء پریس کانفرنس کرتے ہیں،پیمرا ایکٹ کے تحت جب تک تصدیق نہ ہو کوئی ایسی آڈیو ویڈیو نہیں چلائی جاسکتی ہے۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ایک نجی چینل نے ایک ادارے کے سربراہ کی ویڈیو چلائی تو اس پر 10لاکھ کا جرمانہ ہوا،نجی چینل نے کہا ہمیں انفارمیشن ملی اور ہم نے چلایا،ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا جب تک تصدیق نہ ہو آڈیو ویڈیو نہیں چلائی جاسکتی ہے،جس ملک کا عدالتی نظام مضبوط ہوتا ہے وہاں حقوق کا تحفظ ہوتا ہےاگر ہم تماشائی بن کر بیٹھے رہے گے تو ریاستی ادارے تباہ ہو جائیں گے،کمیشن اپنے ٹی او آرز سے باہر نہیں جا سکتا ہے، یہ بھی دیکھنا ہو گا یہ آڈیوز ریکارڈ کس نے کی ہیں؟کمیشن نے پورے پاکستان کو نوٹس کیا کہ جس کہ پاس جو مواد ہے وہ جمع کروا سکتا ہے،کوئی قانونی طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے کہا کہ کمیشن کا قیام آرٹیکل 209کی بھی خلاف ورزی ہے۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ سپریم کورٹ افتحار چودھری اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں فیصلے دے چکی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 209 ایگزیکٹو کو اجازت دیتا ہے کہ صدراتی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج سکتی ہے،بظاہر وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججز کے خلاف مواد اکٹھا کر کہ مس کنڈیکٹ کیا ہے۔جب یہ آڈیو چلائی جا رہی تھی،کیاحکومت یا پیمرا نے اس کو روکنے کی کوئی ہدایت جاری نہیں کی؟
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ پیمرا نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی،حکومت نے بھی پیمرا سے کوئی بازپرس نہیں کی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پیمرا کی حد تک عدالت سے متفق ہوں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ وفاقی حکومت نےآئین میں اختیارات کی تقسیم کی خلاف ورزی کی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے انکوائری کمیشن نے ہر کام جلدی میں کیا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ججز اپنی مرضی سے کیسے کیمشن کا حصہ بن سکتے ہیں،اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کے خلاف بھی چیف جسٹس کی اجازت سے جوڈیشل کونسل کے علاوہ کسی دوسرے فورم پر جا سکتے ہیں، میٹھے الفاظ استعمال کر کے کور دینے کی کوشش کی جارہی ہے،بظاہر اختیارات کی تقسیم کے آئینی اصول کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے،یہ انتہائی پریشان کن صورتحال ہے۔جب یہ آڈیو چلائی جا رہی تھی،کہا حکومت یا پیمرا نے اس کو روکنے کی کوئی ہدایت جاری نہیں کی۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مختصر عبوری حکم جاری کیا جائے گا۔
درخواستوں میں کیا مؤقف اپنایا گیا:
عمران خان نے ایڈووکیٹ بابراعوان کے توسط سے دائر آئینی درخواست میں استدعا کی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا نوٹی فکیشن کالعدم قراردیا جائے۔
سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے بھی آڈیو لیکس کمیشن کی جانب سے طلبی کا نوٹس چینلج کرتے ہوئے درخواست میں وفاق، آڈیو لیکس کمیشن، پیمرا اور پی ٹی اے کو فریق بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نوٹیفکیشن آئین کی خلاف ورزی ہے۔
عابد زبیری نے درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ کسی بھی شہری کی جاسوسی یافون ٹیپنگ نہیں کی جاسکتی، آڈیو لیک کمیشن کا نوٹیفکیشن آرٹیکل 9، 14،18، 19، 25 کی خلاف ورزی ہے، کمیشن کی تشکیل، احکامات اور کارروائی کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔
واضح رہے کہ مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے حکومت کی جانب سے بنائے گئے جوڈیشل کمیشن نے اپنا پہلا اجلاس پیر کو منعقد کیا تھا جب کہ اس کا آئندہ اجلاس ہفتے کی صبح 10 بجے سپریم کورٹ بلڈنگ میں طلب کیا گیا ہے۔ دریں اثنا چیف جسٹس آف پاکستان نے آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا تھا۔