سویلین ٹرائل کیس کاتحریری حکم ،جسٹس منصور کا الگ نوٹ جاری

Jun 26, 2023 | 23:33 PM

ایک نیوز:سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کے کیس کا تحریر ی حکم نامہ جاری کر دیا، جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے الگ نوٹ تحریر کیا ہے۔

عدالت عظمیٰ نے تحریری حکم نامے میں کہا ہے کہ آج سماعت کےآغاز پر اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے،اٹارنی جنرل نےجسٹس منصورعلی شاہ پراعتراض اُٹھایا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کے کیس کا تحریر ی حکم نامہ جاری کر دیا، جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے الگ نوٹ تحریر کیا ہے۔

خیال رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستوں پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تشکیل دیے گئے 9 رکنی بینچ نے 22 جون کو سماعت کا آغاز کیا تھا، تاہم دورانِ سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد 7 رکنی بینچ نے سماعت کا دوبارہ آغاز کیا تھا۔

درخواستوں پر آج سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے اور وفاقی حکومت کی جانب سے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھادیا، جسٹس منصور علی شاہ کے 7 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد سپریم کورٹ کا 6 رکنی بینچ سماعت کی۔

6 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل ہے۔

ابتدائی سماعت کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے سماعت کا تحریری حکمنامے جاری کر دیا گیا ہے۔

تحریری حکمنامے میں کہا گیا کہ آج سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل پاکستان روسٹرم پر آئے اور بتایا کہ وفاقی حکومت نے ہم میں سے ایک (جسٹس سید منصور علی شاہ) کی بنچ میں موجودگی پر اعتراض اٹھایا ہے۔ ان کے درخواست گزار سابق چیف جسٹس جسٹس جواد ایس خواجہ کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اسی دوران جسٹس منصور علی شاہ نے اعتراض پر غور کرنے کے بعد خود کو بینچ سے الگ کر لیا۔

تحریری حکمنامے کے مطابق چونکہ کیس کافی اہمیت کا حامل ہے اسی لیے بینچ کے دیگر ارکان نے چیف جسٹس آف پاکستان سے بینچ دوبارہ تشکیل دینے کی درخواست کی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا الگ نوٹ

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے الگ نوٹ میں لارڈ ہیورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ اہم ترین بات ہے کہ نہ صرف انصاف ہو بلکہ ہوتا ہوانظر بھی آئے، میں ان خیالات کا اظہار پہلے بھی متعدد دفعہ کرچکا ہوں، عدالتی نظام میں عوام کا اعتماد سب سے بنیادی نقطہ ہے۔

معزز جج کا مزید کہنا تھا کہ عوام کا اعتماد ہی عدالتی فیصلوں کو قانونی جواز دیتا ہے، ہر اس چیز سے گریز ضروری ہے جس سے عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچے، زیر سماعت درخواستوں میں ایک درخواست گزار جسٹس جواد ایس خواجہ بھی ہیں۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ میرے رشتہ دار ہیں، اس بات کا علم عدالتی نظام سے جڑے ہرشخص کو ہے، جن کوعلم نہیں تھا ان کو بھی سماعت کے آغاز پر اوپن کورٹ میں یہ بات بتائی۔ سماعت کے آغاز پر پوچھا کیا کسی کو میرا اس مقدمے کو سننے پراعتراض تو نہیں، اٹارنی جنرل سے بھی پوچھا انہوں مجھ پراعتراض تو نہیں۔

 جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل نےکہا میری بینچ میں موجودگی پر انہیں کوئی اعتراض نہیں، ججزکا کوڈ آف کنڈکٹ کہتا ہے کہ منصف ایسے مقدمات نہ سنے جس میں اس کی ذاتی دلچسپی ہو، جوادایس خواجہ کی درخواست ان کے ذاتی مفاد نہیں بلکہ مفاد عامہ کا معاملہ تھا۔

معزز جج کا مزید کہنا تھا کہ میراموقف تھا ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کے آرٹیکل کا اطلاق اس کیس پر نہیں ہوتا، بینچ سے از خود علیحدگی اس لئے نہیں چاہتا تھا کسی اعتراض کے بغیرایسا کرنادرست نہ ہوتا، یہ ججز کی ذمہ داری ہے وہ آئین کا تحفظ اور دفاع کریں، موجودہ کیس آئینی لحاظ سے نہایت اہم اور مفاد عامہ کاہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بنیادی انسانی حقوق، زندگی، آزادی، آبرو اور فئیر ٹرائل کا معاملہ عدالت کے سامنے ہے، اس معاملے کی اہمیت کے پیش نظر فل کورٹ بنایا جانا چاہیے تھا۔ فل کورٹ نہ بنائے جانے پر مجھے شدید تحفظات تھے۔ پاکستان میں موجود سپریم کورٹ کے تمام ججز پر مشتمل بینچ تشکیل دیا جانا چاہیے تھا۔ ان تحفظات کے باوجود بینچ کا حصہ بنا اور سماعت جاری رکھی۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ آج سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے بینچ میں میری موجودگی پراعتراض اٹھایا، آئینی عدالت میں یہ فیصلہ جج ضمیر کےمطابق کرتا ہے کہ سماعت کرے یاعلیحدگی اختیارکرے، عدالتی غیرجانبداری عوامی اعتماد کیلئے ضروری اور فئیر ٹرائل کیلئے ناگزیر ہے، عدالتی غیرجانبداری جمہوریت کے تحفظ اور قانون کی عملداری کیلئےنہایت ضروری ہے۔

مزیدخبریں