ایک نیوز:فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے خلاف کیس میں وفاقی حکومت کے بینچ پر اعتراض کے بعد کیس سننے والا 7رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد 6 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی,چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ توقع کرتے ہیں جب تک سپریم کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت ہے فوجی عدالتیں ٹرائل شروع نہیں کریں گی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ جن افراد نے ممنوعہ مقامات پر حملہ نہیں کیا ان کو چھوڑ دیا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق وقفےکے بعد چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت دوبارہ شروع کی، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ کا حصہ ہیں۔
وکیل چیئرمین پی ٹی آئی حامد خان روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ہماری درخواست پر نمبر نہیں لگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے پر بعد میں آئیں گے، ابھی ہم ایک سیٹ بیک سے رکور کر کے آرہے ہیں۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ ہماری اس درخواست میں ایک استدعا فوجی عدالتوں کیخلاف ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنی درخواست میں ترمیم کیوں نہیں کر لیتے، آپ نے ایک درخواست میں کئی استدعائیں کی ہیں۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ میں صرف ایک فوجی عدالتوں کے خلاف استدعا پر زور دوں گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مقدمے میں آئین اور قانون کے بجائے دیگر تراکیب استعمال کی جا رہی ہیں، ایسی تراکیب کا استعمال اچھی بات نہیں۔حامد خان صاحب،آپ کو بعد میں سنیں گے، جو صبح سیٹ بیک ہوا اس سے ری کور ہو رہے ہیں، آئینی بحث کے بجائے دیگر حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ پہلے دن کے سوال پر واپس جاؤں گی، آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کا اطلاق کس پر ہوتا ہے؟
جسٹس منیب نے سوال کیا کہ کیا افواج کے اراکین کا بھی ملٹری کورٹس میں کورٹ مارشل نہیں ہوسکتا؟
وکیل سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ برطانیہ اور امریکا میں بھی مخصوص حالات میں فوجی افسران کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب نے سوال کیا کہ فوجی عدالتوں کے خلاف ہائیکورٹ میں آئینی درخواست کیوں دائر نہیں کی جاسکتی تھی؟
وکیل سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ فوجی عدالتوں کی حیثیت کا تعین نہیں کرسکتی۔میرے موکل کے بیٹے کا معاملہ ملٹری کورٹس میں ہے،ٹرائل صرف آرٹیکل 175 کے تحت تعینات کیا گیا جو جج کر سکتا ہے،ایف پی ایل ای کیس کا جب فیصلہ ہوا تک اختیارات کی تقسیم کا اصول واضح نہیں تھا۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دئیے کہ ایف پی ایل ای ک اس کیس سے کیسے متعلق ہے؟
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آپ مفروضے پر بات کر رہے ہیں کہ جب ٹرائل ہوگا تو یہ ہونا چاہیے وہ ہونا چاہیے،ابھی تو ملٹری کورٹس میں ٹرائل شروع ہی نہیں ہوا،جب کاروائی کا آغاز ہی نہیں ہوا تو آپ کیوں ٹرائل کے دوران سویلین کے حقوق کی بات کر رہے ہیں؟اپنے کیس پر دلائل دیں،ہمارے پاس محدود وقت ہے کل آخری ورکنگ ڈے ہے،کسی بڑے تنازعہ میں نہ پڑیں دلائل کو سادہ رکھیں تاکہ ہم کیس جلد ختم کر سکیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ ایف پی ایل ای کیس تو ریٹائرڈ آرمی آفیشلز کے ٹرائل پر تھا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک آرمی آفیسر کا بھی ملٹری کوٹس میں ٹرائل یا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اگر کسی عدالت میں ٹرائل سے میرے آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے تو پھر خصوصی عدالت میں کیس چل سکتا ہے،بینکنگ کورٹ یا اے ٹی سی جیسی خصوصی عدالتوں میں آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ابھی کس کا ٹرائل شروع ہوا؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ابھی کسی کا ٹرائل شروع نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ پھر مفروضوں پر بات نہ کریں کہ ٹرائل ہو گا تو یوں ہوگا،ایسے تو کل ملٹری آفسران کے ٹرائل پر بھی بات کی جائے گئی،آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 ڈی آئین سے تجاوز نہیں کر سکتا۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ بہتر نہیں ہوگا کہ پہلے یہ دیکھا جائے کہ سویلین پر آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کا اطلاق ہوتا بھی ہے یا نہیں؟
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کا کیس ہے،آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 ڈی سویلینز کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کر سکتا۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ اس بات پر آمادہ ہیں کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق سویلینز پر ہوتا ہے تو پھر کیا کیس ہے آپکا؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں سویلینز میں ریٹائرڈ آرمی افسران بھی آتے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ آپ آرمی ایکٹ کو چیلنج کر رہے ہیں اور سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مخالفت نہیں کر رہے۔سویلین کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل پر آپ کا اعتراض 175 تھری کی حد تک ہے؟ یہ جاننا اب ضروری ہے کہ آپ کی سیکشن 2 ڈی پر کیا انڈر سٹینڈنگ ہے؟ ایف بی ایل ای کیس میں تو ریٹائرڈ فوجیوں کا فوج کے اندر تعلق کا معاملہ تھا،کیا سویلین کو فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟آپ کی کیا دلیل ہے،آپ نے ایکٹ کی شکیں چیلنج کی ہیں اس کی بنیاد کیا ہے؟
جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ جوڈیشری کی اصطلاح کی آئینی تعریف موجود نہیں ہے،آئین اختیارات کی تقسیم کی بات کرتا ہے اور اس میں جوڈیشری کے اختیارات کو الگ رکھا گیا ہے،آپ کے خیال میں جوڈیشری ہے کیا؟
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کیا کورٹ مارشل کا لفظ آرمی ایکٹ کے علاوہ کہیں استعمال ہوا،ملٹری کورٹس کے بارے میں بہت سے فیصلے ہیں وہ دیکھنا چاہتے ہیں،چیف جسٹس نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جو کیس ملٹری افسران کے بارے میں نہیں اس میں انہیں کیوں لا رہے ہیں؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میرا فوکس صرف سویلینز پر ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 199 کا اطلاق کورٹ مارشل پر نہیں ہوتا۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرٹیکل 199 آرمی ایکٹ کے تحت سزاوں پر لاگو ہوتا ہے لیکن کورٹ مارشل پر نہیں۔جو افراد آرمی ایکٹ کے تحت ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان پر بنیادی حقوق کا اطلاق نہیں ہوتا؟ آپ کے دلائل کا مقصد سمجھنا چاہ رہے ہیں۔الزام کی بنیاد پر فوجی افسران یا سویلین پر آرمی ایکٹ 2 ڈی کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ ایف بی ایل ای کیس میں تو ریٹائرڈ فوجیوں کی فوج کے اندر تعلق کا معاملہ تھا ، وہ معاملہ اس معاملے سے مطابقت نہیں رکھتا ،آپ بتائیں کیا سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں،آپ آرمی ایکٹ کی شقیں چیلنج کر رہے ہیں لیکن وجوہات نہیں بتا رہے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک کیس میں یہ اصول طے کر چکی ہے کہ جوڈیشل ا مور جوڈیشری ہی چلا سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فوجی عدالتوں سےمتعلق متعدد فیصلے موجود ہیں،آپ جو بات کر رہے ہیں وہ فوجیوں کے حق میں جاتی ہے،ہم بہت سادہ لوگ ہیں ہمیں سادہ الفاظ میں بتائیں،جو باتیں یہاں کررہے ہیں یہ باتیں ہارورڈ یونیورسٹی میں جا کر کریں۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرٹیکل 175 تھری کے تحت جوڈیشل اختیارات کوئی اور استعمال نہیں کر سکتا،سپریم کورٹ خود ایک کیس میں طے کر چکی کہ جوڈیشل امور عدلیہ ہی چلا سکتی ہے۔میں ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کی حد تک ہی بات کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمار کس دیئے کہ تو ہمیں یہ ہی بتائیں کہ کیا سویلین کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ صرف کسی پر ایک الزام لگا کر فیئر ٹرائل سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ جو افراد آرمی ایکٹ کے تحت ڈسپلنری خلاف ورزی کرتے ہیں ان پر بنیادی حقوق کا اطلاق نہیں ہوتا؟آپ کے دلائل کا مقصد سمجھنا چاہ رہے ہیں۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ الزام کی بنیاد پر کسی فوجی افسران یا سویلین پر آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔
چیف جسٹس نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ فوجی افسران کی نمائندگی کر رہے ہیں؟آپ کا کیس سویلینز کے بنیادی حقوق سے متعلق ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ایک وکیل متبادل عدالتی نظام کی بات کرتے ہوئے کورٹ مارشل کے معاملے پر کیسے جا سکتا ہے؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سویلینز کی 2اقسام ہیں،ایک وہ سویلین ہیں جو آرمڈ فورسز کو کوئی سروسز فراہم کرتے ہیں،فورسز کو سروسز فراہم کرنے والے سویلین ملٹری ڈسپلن کے پابند ہیں،دوسرے سویلینز وہ ہیں جن کا فورسز سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں،جو مکمل طور پو سویلینز ہیں ان کا ٹرائل 175/3 کے تحت تعینات جج ہی کرے گا۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ ہم ملٹری کورٹس کو کیسے کہیں کہ وہ عدالتیں نہیں ہیں؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایسی کئی عدالتیں اور ٹریبونل ہیں جن کا آرٹیکل 175/3 ست تعلق نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ملٹری کورٹس کے فیصلے چیلنج نہیں ہو سکتے؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرمی چیف کے سامنے یا انکی بنائی کمیٹی کے سامنے چیلنج ہو سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کورٹس میں اپیل کا دائرہ وسیع ہو ۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں ایمرجنسی نافذ ہو بنیادی حقوق معطل ہو تو کیا پھر سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ امریکی قانون اس پر بڑا واضح ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ امریکہ میں جو سویلین ریاست کے خلاف ہو جائیں ان کا ٹرائل کہاں ہوتا ہے؟ایسے سویلین کا ٹرائل امریکہ میں عام عدالتیں کرتی ہیں،فیصل صدیقی ایڈوکیٹ نے کہا تھا دنیا میں ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل ہوتاہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ کیا ہمارے خطے میں سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتا ہے؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بھارت میں ایسا نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ 21ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ دیکھیں،مسلح افواج پر ہتھیار اٹھانے والوں پر آرمی ایکٹ کے نفاذ کا ذکر ہے۔
45 منٹ وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع
فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوگئی۔ درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجہ کی جانب سے دلائل جاری ہے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں کہا کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 ڈی کو اس لیے چیلنج کیا کہ اس کے تحت سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا، میرے موکل جنید رزاق کو اٹھا لیا گیا۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ جنید رزاق کے بیٹے ارزم رزاق کو ایک الزام لگا کر اٹھایا گیا۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ تفریق کیسے ہوئی کہ ایک ہی الزام پر کچھ لوگ عام کورٹس جبکہ کچھ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے لیے جائیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ اگر وہ کہیں کہ ہم کچھ کو ملٹری کورٹس میں ٹرائل کریں گے اور باقی گھر جائیں گے تو آپ کو پھر کوئی مسئلہ نہیں؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اگر ایسی عدالت لے جایا جائے جہاں بنیادی حقوق دستیاب ہوں تو مجھے اعتراض نہیں۔2ڈی کو اس لیے چیلنج کیا کیونکہ اس کے تحت سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہوسکتا، افسران اگر جوڈیشل اختیار کا استعمال کریں گے تو فیئر ٹرائل کا حق ملنے کا امکان نہیں، ہمارا قانون سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا حق نہیں دیتا، فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل تفریقی ہے، درخواست گزار کا بیٹا مقدمے میں ملزم ہے اور نہیں معلوم ملزم پر الزامات کیا ہیں؟ صرف افراد ملٹری کورٹ بھیجے گئے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ اگر 50 میں سے 18افراد کا ٹرائل کیا جائے تو کیا کوئی اعتراض ہوگا؟
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایسی عدالت بھیجا جائے جہاں بنیادی حقوق دستیاب ہوں تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا، افراد کی تعداد کی بجائے ملزمان کے نام معلوم ہونے چاہیں، بہت سے افراد کے بارے میں معلوم نہیں اور فوجی عدالتوں میں عدالتی معاونین ہونے چاہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ خاندان کو کیوں قیدی بنایا گیا ہے،درخواست گزار جنید رزاق کی فیملی کب سے قید میں ہے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ9 مئی سے ارم رزاق و دیگر کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اتنے دن گزر گئے ابھی تک کچھ پتہ نہیں،اٹارنی جنرل سے آپ اس معاملے کو دیکھیں۔ان کو خاندان سے ملنے کی اجازت دیں۔یہ شکایت کس کی جانب سے تھی؟خاندانوں کو کیوں اٹھایا ہے؟مجھے توقع ہے کہ عدالتی کارروائی مکمل ہونے تک کوئی ملٹری ٹرائل نہیں ہوگا۔کسی کو کوئی شکایت ہے تو نام بتادیں میں متعلقہ حکام سے بات کرنے کی کوشش کرونگا۔
وکیل لطیف خان کھوسہ نے کہا کہ وکیلوں تک رسائی بھی نہیں دی جارہی،نہ خاندان کو ملنے دیا جاریا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے نام بتادیں تو میں آگے بات کرونگا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل ذاتی طور پر اس معاملے کو دیکھیں۔
درخواست گزار کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل بھی مکمل ہوگئے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
وکیل پی ٹی آئی چیئرمین کے دلائل
وکیل چیئرمین پی ٹی آئی عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ہم تمام درخواست گزاروں کو سپورٹ کرتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں اوپن ٹرائل ہو، اگر کوئی قصور وار ہے تو اسے سزا ملنی چاہیے، 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی مقاصد کے اہداف اور خواہشات کے حصول کی بات نہ کریں۔ چیف جسٹس نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ صرف قانون کی بات کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ توقع کرتے ہیں جب تک سپریم کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت ہے فوجی عدالتیں ٹرائل شروع نہیں کریں گی۔ کہا جا رہا ہے کہ ملزمان کو اہلخانہ سے بھی ملنے نہیں دیا جا رہا؟ خوراک اور کتابوں کی عدم فراہمی کی بھی کچھ شکایات ہیں۔
سماعت کل تک ملتوی
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل ساڑھے 9بجے تک ملتوی کر دی۔
اس سے قبل چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت شروع کی تھی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ جسٹس منصور علی شاہ کے قریبی عزیز اس مقدمہ میں درخواست گزار ہے، وفاقی حکومت کی ہدایات ہیں کہ جسٹس منصور علی شاہ یہ مقدمہ نہ سنے۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے تھے کہ میں نے پہلی سماعت پر پوچھا تھا کسی کو اعتراض ہے تو بتا دیں، اب بینچ پر اعتراض کس کی طرف سے اٹھایا گیا ہے۔ کوڈ آف کنڈیکٹ کا آرٹیکل 4 بڑا واضع ہے، کیا اعتراض ہے کھل کر بتائیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ جسٹس جواد ایس خواجہ کے رشتہ دار ہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں بینچ سے خود کو الگ کرتا ہوں۔جسٹس منصور علی شاہ وفاقی حکومت کے اعتراض کے بعد بینچ سے علیحدہ ہوگئے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے پہلے بھی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، عدالت کے فیصلوں پر عمل اخلاقی ذمہ داری ہے اور ہمارے پاس فیصلوں پر عمل کے لیے کوئی چھڑی نہیں البتہ بہت سے لوگوں کے پاس چھڑی ہے لیکن انکی اخلاقی اتھارٹی کیا ہے۔ لوگ عدالتی فیصلوں کا احترام کرتے ہیں، بینچ میں شامل رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ جج صاحب خود کریں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ میرے خیال سے اعتراض کے بعد میں میرا اس بینچ میں شامل رہنا نہیں بنتا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اس سب پر ہم وزیراعظم سے پوچھیں؟ اگر ایسے الزامات حکومت لگائے گی تو کیا ہوگا، عدالت کو بدنام مت کریں، آپ بینچ کے ایک جج پر جانبداری کا الزام لگا رہے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیےکہ میں کبھی اس بینچ میں نہیں بیٹھا جب مجھ پر جانبداری کا شبہ بھی ہو۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ جج صاحب پر جانبداری کا کہہ رہے ہیں یا مفادات کے ٹکراو کا؟ آپ کس بنیاد پر اعتراض کر رہے ہیں، آپ ایک قابل وکیل ہیں، آپ اچھے کردار اور اقدار کے حامل وکیل ہیں، ہماری حکومت ہمیشہ بینچز کی تشکیل پر بات کرتی ہے، کبھی کہا جاتا ہے بینچ درست نہیں بنایا گیا، آپ ہمیں ہم خیال ججز کا طعنہ دیتے ہیں، آپ کرنا کیا چاہتے ہیں؟ ہم نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، ہم نے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کو سزا نہیں سنائی، ہم سمجھتے ہیں یہ وقت ایک قدم پیچھے ہٹنے کا ہے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سماعت پر جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ان کا درخواست گزار جواد ایس خواجہ سے قریبی تعلق ہے اس لیے جسٹس منصور علی شاہ بینچ میں بیٹھنے پر نظرثانی کریں، میرا ابھی بھی وہی مؤقف ہے جو گزشتہ سماعت پر تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کو کس نے کہا ہے اس کا نام لیں۔
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے وفاقی حکومت کی ہدایات ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں نے اسی لیے آپ سے پہلے پوچھا تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے وفاقی حکومت نے جو کہا ہے وہ بتا رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جانبداری کی وجہ سے اعتراض اٹھا رہے ہیں یا مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے؟ اگر جج کسی رشتہ دار کو کوئی فائدہ دے تو یہ اعتراض بنتا ہے، آپ ایک اچھے وکیل ہیں اور ہم آپ کا احترام کرتے ہیں، آپ جو اعتراض اٹھا رہے ہیں یہ اعتراضات کے تسلسل کا حصہ ہے ادھر ہمارے سامنے ایک آئینی معاملہ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار جواد ایس خواجہ ایک غیر سیاسی شخصیت اور درویش انسان ہیں، میں خود جواد ایس خواجہ کے ساتھ کام کر چکا ہوں لیکن آپ ایک بار پھر بینچ کو متنازع بنانا چاہتے ہیں، آپ کے موکل پارلیمان میں کھڑے ہو کر سیاسی بیانات دیتے ہیں، آپ نے ہم پر ہم خیال ہونے کا الزام لگایا۔
چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اس عدالت کی تضحیک مت کریں، سپریم کورٹ پر الزامات خود وفاقی حکومت لگا رہی ہے۔ نیا بینچ بنا دیں گے لیکن اعتراض اٹھانا بدنما مذاق ہے۔
ایڈوکیٹ حامد خان نے کہا کہ دو دن کی سماعت ہو چکی ہے اور اب یہ نامناسب ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا حکومت ایک مرتبہ پھر تناسب کے ایشو پر جانا چاہتی ہے؟ پہلے بھی حکومت تناسب کی بات کرتی رہی اور کہا جاتا ہے کہ بینچ ٹھیک نہیں بنایا گیا، کسی نے یہ نہیں کہا 90 دنوں میں انتخابات آئینی تقاضا ہے، فیصلے پر اصولی طور کوئی اعتراض نہیں تناسب پر اعتراض اٹھایا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ موجودہ کیس بہت سادہ ہے، درخواست گزار جسٹس جواد خواجہ درویش انسان ہیں، جواد ایس خواجہ کے ساتھ میں نے بھی کام کیا ہے اور انکا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں، آپ بنیادی حقوق کو کیسے ختم کریں گے، بینچ کے ممبران پر اعتراض اٹھا کر کیا چاہتے ہیں؟ کیا دوبارہ سے جو ہمیں کہا جاتا ہے لائک مائنڈڈ ججز والا ایشو چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہم ابھی اُٹھ رہے ہیں، آپس میں مشاورت کے بعد آگےکا لائحہ عمل طے کریں گے۔ سپریم کورٹ کے ججز کمرہ عدالت سے اُٹھ کر چلےگئے۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے بینچ دوبارہ ٹوٹنے پر 6 رکنی بینچ بنا دیا ہے۔سپریم کورٹ کا 6رکنی بنچ کچھ دیر بعد سماعت کرے گا،کمرہ عدالت نمبر ایک میں چھ کرسیاں لگا دی گئی ہیں،جسٹس منصور علی شاہ کے بنچ سے سے الگ ہونے کے بعد بنچ ٹوٹ گیا تھا۔
واضح رہے کہ اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہوچکے ہیں، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین اور سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے بھی دلائل مکمل کرلیے ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان، وزیراعظم شہباز شریف کے وکیل فروغ نسیم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے وکیل بھی مقدمے میں دلائل دیں گے۔عدالت عظمیٰ نے چاروں صوبوں سمیت اسلام آباد سے گرفتار افراد کی تفصیلات طلب کی تھیں۔