کشمور،ٹاؤن کمیٹی گڈو کی وارڈ نمبر 7 کے مکمل غیر سرکاری غیر حتمی نتیجہ کے مطابق آزاد امیدوار محراب علی مزاری 37 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے، جماعت اسلامی کے امیدوار عبید اللہ 18 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔
خیرپور،میونسپل کمیٹی خیرپور کی وارڈ نمبر 15 کے مکمل غیر سرکاری غیر حتمی نتیجہ کے مطابق پیپلز پارٹی کے غلام حسین مغل 1304 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، آزاد امیدوار منصور اقبال شیخ 408 لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
قبل ازیں سندھ میں بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے کے تحت 14 اضلاع میں پولنگ کے دوران دوران صوبے میں سکیورٹی سخت کی گئی، پولیس سمیت قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی بھاری نفری تعینات رہی، کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کیلئے چالیس ہزار سے زائد پولیس اہلکار تعینات کئے گئے ہیں، بیالیس ایس ایس پیز اور 82 ڈی ایس پیز بھی نگرانی کر رہے ہیں، کوئیک رسپانس کیلئے رینجرز کو اسٹینڈ بائی رکھا گیا، حلقوں میں اسلحہ کی نمائش پر پابندی عائد کی گئی، صورتحال خراب کرنے والوں کیخلاف فوری مقدمہ درج کئے جانے کے احکامات جاری کئے گئے۔
دوران پولنگ مختلف علاقوں میں دنگے فساد کے واقعات بھی پیش آئے، نوشہرو فیروز کے علاقے بھریاسٹی میں ووٹرز کے درمیان تصادم ہوا، پولنگ کچھ دیر کیلئے روکی گئی جبکہ پولیس کی اضافی نفری کو طلب کیا گیا۔
کندھ کوٹ میں جے یو آئی (ف) اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے مابین لاٹھیاں چل گئیں، تصادم کا واقعہ میونسپل کمیٹی وارڈنمبر 10 میں پیش آیا جہاں لاٹھیاں لگنے سے 30 کارکن زخمی متعدد گاڑیوں کو نقصان پہنچا.
اطلاع ملنے پر پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور حالات پر قابو پا لیا، ٹھل کی یوسی 28 پر پیپلزپارٹی اور جے یو آئی ف کے کارکنان میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا، 7افراد زخمی ،3گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔
نواب شاہ میں پولنگ سٹیشن نادر شاہ ڈسپنسری میں ہنگامہ آرائی کا واقعہ پیش آیا، مظاہرین کا کہنا تھا کہ بیلٹ پیپر میں ایک سیاسی جماعت کانشان نہیں ہے۔ ہنگامہ آرائی کے باعث پولنگ روک دی گئی، علاقے میں پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات کی گئی۔
سندھ میں بلدیاتی الیکشن کے دوران کئی اضلاع میں لڑائی جھگڑے کے واقعات میں 37 افراد زخمی ہو گئے۔ کندھ کوٹ میں جے یو آئی ف اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے درمیان تصادم، پولنگ عملے کے 10 اہلکاروں کو اغوا کر لیا گیا۔ ٹھل میں فائرنگ تو گھوٹکی میں خواتین نے ووٹ کاسٹ نہ کرنے دینے پر احتجاج کیا۔
سندھ کے 14اضلاع میں بلدیاتی الیکشن ، کہیں لڑائی جھگڑے تو کہیں فائرنگ کے واقعات پیش آئے۔ کندھ کوٹ میں جے یو آئی ف اور پیپلزپارٹی کے کارکن آمنے سامنے آ گئے۔ ایک دوسرے کی ڈنڈوں کے ساتھ پٹائی کے نتیجے میں 30 کارکن زخمی جبکہ متعدد گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔ دوسرے واقعے میں کندھ کوٹ کے ددر یوسی کے پولنگ سٹیشن ٹوڑی بنگلو پر مسلح افراد نے دھاوا بول کر پولنگ عملے کے 10افراد کواغواکر لیا، مسلح افراد نے ووٹرز کو ہراساں کرنے کیلئے ہوائی فائرنگ بھی کی۔ علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
نوشہرو فیروز کے علاقے بھریا سٹی میں بیلٹ پیپر پر اُمیدوار کے اسٹیمپ لگانے پر تصادم ہوا، کارکنوں نے ایک دوسرے پر شدید تشدد کیا ،پولیس کی اضافی نفری نے صورتحال کو سنبھالا۔
ٹھل کی یوسی 28 پر پیپلزپارٹی اور جے یو آئی ف کے کارکنان میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا، 7افراد زخمی اور 3گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔
نوابشاہ میں بیلٹ پیپرز میں تحریک لبیک کا نشان غائب ہونے پر تحریک کے کارکنان آپے سے باہر ہو گئے، ہنگامہ آرائی کے باعث پولنگ روکنا پڑی، رینجرز اور پولیس نے صورتحال کو سنبھالا۔
کشمور میں گڈو کے وارڈ نمبر 10 کے پولنگ اسٹیشن پر پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے کارکنوں میں تصادم ہوا جبکہ نوابشاہ میں پیپلزپارٹی کے اُمیدوار کا نشان مخالف اُمیدوار کو دے دیا گیا، پی پی کے اُمیدوار کو جے ڈی اے کا نشان دے دیا گیا، اسی طرح خیر پور میں بھی آزاد اُمیدوار نے اچانک انتخابی نشان تبدیل کرنے پر کارکنوں کے ہمراہ ڈی آر او اور پیپلزپارٹی کیخلاف احتجاج کیا۔
سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوران بیلٹ پیپرز کی چھپائی کی غلطیاں سامنے آئیں جس پر چیف الیکشن کمشنر نے تحقیقا ت کا حکم دیدیا۔ ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق جہاں پر امیدواروں کے نام غلط پرنٹ ہوئے، وہاں پولنگ ملتوی کر دی، دوبارہ الیکشن کیلئے نیا شیڈول جاری کیا جائے گا۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی الیکشن کمشنر اعجاز چوہان نے کہا کہ جہاں جھگڑے ہوئے وہاں صورتحال پر قابو پالیا ہے، پر تشدد واقعات کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انکوائری بھی ہوگی، امیدواروں اور تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ حالات کو پرامن رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے علم میں نہیں ہے کہ بیلٹ پیپر کم بھیجے گئے ہیں، الیکشن کمیشن خود مختار ادارہ ہے کسی کی ڈائریکشن کے پابند نہیں ہیں، بلدیاتی نتائج قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی سے زیادہ بڑے پیمانے پر جمع کئے جاتے ہیں، کراچی میں مرکزی مانیٹرنگ روم سے بھی غیر حتمی نتائج جاری کیئے جائیں گے۔
اعجاز چوہان نے مزید کہا کہ شام 5 بجے تک پولنگ جاری رہے گی،تمام ڈی آر اوز ضلعی افسران اور پولیس افسران سے رابطے میں ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کے رہنما وسیم اختر نے کہا ہے کہ سندھ بلدیاتی الیکشن میں دھاندلی کا بازار گرم ہے، بیلٹ پیپرز پر انتخابی نشان ہی موجود نہیں، الیکشن کمیشن اپنی کارکردگی دیکھے، اندرون سندھ ڈاکو بیلٹ پیپرز اٹھا کر لے گئے، ٹرن آؤٹ کم رہا، فائرنگ واقعات کی وجہ سے ووٹر خوفزدہ رہا، اس طرح کا الیکشن پیپلز پارٹی حکومت پر سوالیہ نشان ہے۔
پریس کانفرنس کرتے ہوئے وسیم اختر نے الیکشن کمیشن سے 3 اضلاع سکھر، نواب شاہ اور میرپورخاص میں ووٹنگ کا عمل معطل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے بعض علاقوں میں ڈاکوؤں نے بیلٹ باکس اور بیلٹ پیپرز چھین لیے اور انتخابی عملے کو غائب کر دیا جب کہ کچھ بیلٹ پیپرز پر انتخابی نشان بھی نہیں چھاپے گئے۔
انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں انتخابی عمل پر سوال اٹھا رہی ہیں، انہوں نے کہا کہ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے حالات کو سنبھالنے میں ناکام ہیں تو فوج کو بلایا جائے۔
وسیم اختر نے کہا کہ یہاں افراتفری اور تشدد ہے، کیا انتخابات اسی طرح کرائے جاتے ہیں؟ انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ ایسی صورتحال میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات نہیں ہو سکتے۔
صدر تحریک انصاف سندھ علی زیدی نے کہا ہے کہ بلدیاتی الیکشن مہم میں سرکاری مشینری کا بے دریغ استعمال کیا گیا، وفاقی وزیر اور وزیر اعلیٰ کا جلسہ قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھا۔ کیا الیکشن کمیشن نے انہیں نوٹسز جاری کئے۔
سابق وفاقی وزیر علی زیدی نے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے سے متعلق بیان میں کہا کہ سکھر، لاڑکانہ، نوابشاہ اور میرپور خاص میں پولنگ جاری ہے، الیکشن کمیشن کے سامنے کچھ سوالات اٹھانا چاہتا ہوں۔بلاول اور مراد علی شاہ نے لاڑکانہ میں جلسہ کیا، انتخابی مہم کے دوران وفاقی وزیر اور وزیر اعلیٰ کا جلسہ قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھی، کیا الیکشن کمیشن نے انہیں نوٹسز جاری کیے۔ انہوں نے کہاکہ ہم ڈیڑھ ماہ سے الیکشن میں ہونے والی زیادتیوں پر بیانات دیتے رہے، الیکشن مہم میں سرکاری مشینری کا بے دریغ استعمال کیا گیا، سندھ میں الیکشن مہم کے دوران ریاستی دہشتگردی دیکھی گئی، زرداری مافیا نے ہمارے خلاف پولیس کو استعمال اور ہمارے امیدواروں کو اغوا کیا ، انہیں ڈرا دھمکا کر دستبردار ہونے کو کہا گیا، امیدواروں کے علاوہ تجویز و تائید کنندہ کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
علی زیدی نے کہا کہ زرداری مافیا کے خلاف امیدواروں پہ گولیاں بھی چلی، ہمارے کئی امیدواروں کو عدالت سے رجوع کرنا پڑا، کیا ریاستی مشینری کا کھلا استعمال الیکشن کمیشن کو نظر نہیں آیا؟ ہمارے امیدواروں نے زبردست حوصلے کا مظاہرہ کیا، یہ الیکشن نہیں بلکہ مافیا کے خلاف جہاد ہے، سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ہونی تھی، سندھ حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں کیا، اسکے باوجود ہم بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، ہائی کورٹ سے فیصلہ نہیں آیا، اب ہم سپریم کورٹ جا رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام اداروں کو یاد دلاتا ہوں کہ انتخابی عمل صاف و شفاف اور پر امن رکھنا آپ کی ذمہ داری ہے، خدا نخواستہ اگر حالات خراب ہوئے تو اسکے ذمہ دار زرداری مافیا، سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن ہونگے۔