40 سالہ کشمیری انجینیئر بلال احمد میر نے جذباتی انداز میں کہا 'میں نے بغیر پیٹرول یا ڈیزل کے سولر انرجی پر چلنے والی کار تو بنا دی ہے، لیکن میرے پاس پیسے نہیں ہیں، میرے پاس بھی پیسے ہوتے تو میں انڈیا کا ایلون مسک ہوتا۔'
لیکن 13 سال تک اس انوکھے آئیڈیا پر دن رات کام کرنے اور نِجی کوچنگ سینٹروں میں بچوں کو پڑھا کر کمائے گئے لاکھوں روپے اسی منصوبے میں جھونکنے کے باجود بلال آج بہت خوش ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں نہیں کہتا کہ یہ پرفیکٹ کار ہے، لیکن حکومت نے اسے پیٹنٹ بھی کیا ہے، اس میں آگے کام کرنے کے لیے مجھے مناسب پلیٹ فارم چاہیے تب جا کے یہ کام لوگوں کے لیے راحت بنے گا۔‘
بلال کہتے ہیں کہ بجلی پر چارج کرنے کے بعد اس گاڑی کے چاروں طرف لگے سولر پینل سورج کی روشنی سے تین گھنٹے تک چارج ہوتے ہیں جس کے بعد یہ 200 کلومیٹر تک چل سکتی ہے اور اس کی رفتار 150 کلومیٹر فی گھنٹہ تک بھی جاسکتی ہے۔،
ان کا کہنا ہے کہ ’اسی دوران میں نے ٹائمز آف انڈیا میں ایک مضمون پڑھا، جس میں ماہرین نے لکھا تھا کہ 10 سال بعد انڈیا میں پیٹرول کی قیمت میں زبردست اضافہ ہو جائے گا۔ میں نے کافی سوچا اور پھر خیال آیا کہ میں پیٹرول، ڈیزل یا گیس کے بغیر چلنے والی گاڑی بناوٴں گا۔‘
بلال نے 2009 میں ایک پُرانی کار خریدی اور اپنے آئیڈیا پر کام کرنے لگے۔،تصویر کا ذریعہBILAL
پہلا کام بلال نے یہ کیا کہ ایک سیکنڈ ہینڈ کار خریدی اور اُس کے ایندھن کے نظام کو بجلی کے نظام سے بدلا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم اس کو سو فیصد سولر کار نہیں کہہ سکتے، لیکن جو سولر پینلز اس میں چاروں طرف ہیں وہ اسے زیادہ کارآمد بناتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس کا فائدہ یہ ہے کہ دھوپ میں چلتے ہوئے بھی یہ گاڑی خودبخود چارج ہو جاتی ہے۔‘
بلال کہتے ہیں کہ انھوں نے Lead Acid بیٹری کا استعمال کیا ہے، جو بہت وزنی ہوتی ہیں اور گاڑی کی مائلیج کو متاثر کرتی ہیں۔
’اصل میں ہمیں Lithium Ion بیٹری استعمال کرنی چاہیے، جو بہت ہلکی ہوتی ہیں، جگہ بھی کم گھیرتی ہیں اور انہیں استعمال کر کے یہی کار ایک چارج پر 200 کلومیٹر کا سفر کرسکتی ہے۔‘
ریموٹ سینسرز سے لیکر ہائیڈرولک پمپس اور آٹوسینسرز جیسے سازو سامان کے لیے بلال نے کئی سال صرف کیے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے جو یہاں سے ملا میں نے لیا۔ یہاں مجھے جو سولر پینلز ملے وہ پالی کرسٹلین تھے اور وہ جلدی چارج نہیں ہوتے تھے۔ پھر میں جنوبی انڈیا میں چنئی گیا، وہاں سولر توانائی کے ایک ماہر نے مجھے معیاری پینلز کا پتہ بتایا۔ پھر ہر جگہ سے تھوڑا تھوڑا سامان لیا، یہاں تک کہ بہت سارے اوزار اور چیزیں میں نے چین سے منگوائیں۔
اس گاڑی کے دروازے آگے کی بجائے اوپر کی طرف کھُلتے ہیں۔ اس کی بلال دو وجوہات بتاتے ہیں۔
’ایک تو مجھے ایسی گاڑی بنانی تھی جس پر پیٹرول یا ڈیزل کا خرچہ نہ ہو۔ بجلی پر چلنے والی ایسی گاڑیاں بنائی جارہی ہیں، لیکن وہ لگژری نہیں۔ میں نے برطانیہ کی ڈولورین موٹر کمپنی کی مشہور گاڑی کو اپنا ماڈل بنایا۔
دروازے اوپر کی طرف کُھلنے سے یہ کار شاہانہ دکھتی ہے اور دوسرا فائدہ ہے کہ ان دروازوں پر سولر پینلز لگے ہیں، دھوپ میں دروازہ اوپر کریں تو گاڑی چارج بھی ہوجاتی ہے۔‘
کا