ایک نیوز : پاکستان اور لبنان میں سعودی عرب کے سابق سفیر ڈاکٹر علی عواض العسیری نے کہا ہے کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے پاکستان میں معاشی بحالی کے امکانات کو بڑھانے کے لئے بہترین کام کیا ہے، پاکستان نے ہمیشہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی تعلقات کو ترجیح دی ہے، توقع ہے کہ پاکستان کی مستقبل کی سیاسی قیادت اقتصادی پالیسیوں خاص طور پر خلیج تعاون کونسل (جی سی سی)کی معیشتوں کے ساتھ تیزی سے ترقی پذیر شراکت داری کے حوالے سے موجودہ رفتار کو برقرار رکھے گی۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والے مضمون میں انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف ایک مشکل لیکن نتیجہ خیز مدت کے اختتام کے قریب ہیں جس میں انہوں اہم پالیسی فیصلے کئے، ان کا ایک اسٹریٹجک اقدام سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے ساتھ سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات کو وسعت دینا تھا، خلیج تعاون کونسل کی ان اہم معیشتوں نے بھی پاکستان کے معاشی استحکام اور بحالی میں اپنا حصہ ڈالنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ اقتصادی، دفاعی اور ثقافتی تعلقات کو ترجیح دی ہے، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات تاریخی طور پر جڑے ہوئے اور ان کی بنیاد مذہب اور ثقافت کے مشترکہ بندھنوں، باہمی طور پر مفید اقتصادی ضروریات اور علاقائی استحکام سمیت عالمی امن میں مشترکہ سٹریٹجک مفادات پر ہے۔
سابق سعودی سفیر نے کہا کہ خلیج تعاون کونسل کا خطہ پاکستان کی معیشت میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے جو توانائی کی درآمدات اور غیر ملکی ترسیلات کے بنیادی ذریعہ کے طور پر کام کرتا ہے، یہ خطہ پاکستانی تارکین وطن کارکنوں کی سب سے بڑی تعداد کا مسکن بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خطہ میں جاری اقتصادی تنوع اور علاقائی مفاہمت بالخصوص سعودی وژن 2030 کے تحت پاکستان کو ترقیاتی شعبے میں خلیج تعاون کونسل کی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے ساتھ ساتھ ہنر مند افرادی قوت اور قابل تجارت اشیاء خلیجی ممالک کو برآمد کرنے کے کافی مواقع فراہم کرتے ہیں۔
ڈاکٹر علی عواض العسیری نے کہا کہ پاکستان کی سویلین اور فوجی قیادت سمجھتی ہے کہ ملکی معیشت کو پائیدار ترقی کی جانب گامزن کرنے میں خلیج تعاون کونسل کی سرمایہ کاری اہم کردار ادا کرسکتی ہے، اس مقصد کے لیے اہم پالیسی اقدامات میں سے ایک خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام ہے جس کو خلیج تعاون کونسل ممالک سے زراعت، معدنیات اور کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دفاعی پیداوار کے شعبوں میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی سی سی کے اہم اقتصادی کردار پر موجودہ سول ملٹری اتفاق رائے موجودہ حکومت کی طرف سے اقتصادی، سیاسی، سکیورٹی اور خارجہ پالیسی کے محاذوں پر ہونے والی ٹھوس پیش رفت کے پس منظر میں سامنے آیا ہے۔
وزیر اعظم محمد شہباز شریف کو گزشتہ سال اپریل میں مالیاتی ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ملک کو وراثت میں ملا اور انہیں اقتدار سنبھالنے کے بعد اہم چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سعودی عرب کے سابق سفیر نے کہا کہ سیاسی بحران، دہشت گردی کی ایک نئی لہر کے علاوہ بڑی طاقتوں اور بعض قابل اعتماد اتحادیوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی پیچیدہ صورتحال سے نمٹنا بھی ایک مشکل کام تھا لیکن وہ اتحادی رہنماؤں، سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ اور کلیدی غیر ملکی شراکت داروں کو شامل کرکے اس پیچیدہ صورتحال سے کامیابی سے نکلنے میں کامیاب رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اب اتنا مستحکم ہے کہ نگراں سیٹ اپ کی طرف آسانی سے منتقل ہوسکے جو آئندہ عام انتخابات کا انعقاد کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ نو ماہ کی مدت کے لئے تین ارب ڈالر مالیت کا ایک نیا معاہدہ ہوا ہے۔
سعودی سفیر نے کہا کہ اگرچہ دہشت گردی دوبارہ سر اٹھارہی ہے لیکن اب اس خطرے سے نمٹنے کے لئے سکیورٹی کے بہتر ڈھانچے موجود ہیں، چین پاکستان اکنامک کوریڈور بحال ہوگیا ہے جبکہ امریکا کے ساتھ تعلقات بھی دوبارہ پٹڑی پر آگئے ہیں، 2019 سے سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے غیر ملکی ذخائر کو بڑھانے کے لئے کئی ارب ڈالر کے رعایتی قرضے دیئے ہیں جس سے پاکستان کو اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے میں مدد دی ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ تازہ ترین معاہدہ سعودی عرب کی جانب سے سٹیٹ بینک میں 2 ارب ڈالر کا اضافی قرضہ جمع کرانے کے بعد ممکن ہوا۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑی رہا ہے، سیاسی عدم استحکام اور اس کے نتیجے میں معاشی پالیسیوں میں تسلسل کی کمی کے مسائل نے ماضی قریب میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب سے بڑے سرمایہ کاری کے وعدوں کو متاثر کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ 2019 میں اسلام آباد کے دورہ کے دوران سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے توانائی، معدنیات اور کان کنی کے شعبوں میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات اور قطر نے 9 ارب ڈالر کا وعدہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے خطے میں پاکستانی کارکنوں کی تعداد اور ملازمتوں کے تنوع میں بھی اضافہ کرنا چاہئے جن کی اس وقت خطے میں تعداد تقریباً 40 لاکھ ہے، آئی ٹی اور خدمات کے شعبوں میں پاکستان کی ہنر مند افرادی قوت خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب میں ہونے والی معاشی تبدیلیوں میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔