سینیٹ، مساوی سکیلز،یونیورسل ہیلتھ کوریج سمیت 9بل کمیٹیوں کے سپرد 

Feb 26, 2024 | 17:52 PM

ایک نیوز:سینیٹ میں  مساوی سکیلز،واپڈا یونیورسٹی اسلام آباد ،یونیورسل ہیلتھ کوریج  سمیت9بل قائمہ کمیٹیوں کے سپرد کردیئے گئے۔

سینٹ کا اجلاس چئیرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا ۔

سینیٹر خالدہ اطیب کی جانب سے تنخواہ اور الاونسز کے مساوی سکیلز بل،سینیٹر فوزیہ ارشد نےواپڈا یونیورسٹی اسلام آباد بل 2023،سینیٹر ثانیہ نشتر نےیونیورسل ہیلتھ کوریج بل پیش کیاگیا جس متعلقہ کمیٹیوں کے سپرد کردیاگیا۔

سینٹر کامران مائیکل نے کرسچن بچوں کی شادی کی عمر 18سال کی حد مقرر کرنے کی ترمیم کیلئے ازدواج عیسائیان ترمیمی بل پیش کیاجسے منظورکرلیاگیا۔

 سینیٹر کامران مائیکل  کاکہنا تھاکہ بل میں لڑکی اور لڑکے کی عمر شادی کے وقت 18سال تجویز کی گئی۔کمیٹی نے بل میں لڑکی اور لڑکے کی عمر 18سے کم کر کے16سال کر دی ۔

سینٹر کامران مائیکل نے کرسچن بچوں کی شادی کی عمر 18سال کی حد مقرر کرنے کی ترمیم پیش کر دی۔

سینیٹر سیمی ایزدی نے فوجداری قوانین ترمیمی بل ، ایزمنٹس ترمیمی بل 2023 منظوری کیلئے سینیٹ میں پیش کیا جسے منظورکرلیاگیا۔

  سینیٹر ڈاکٹر مہرتاج روغانی نے زخمی افراد کی طبی امداد سے متعلق ترمیمی 2023 منظوری کیلئے پیش کیاجسے منظورکرلیاگیا۔

سینٹر نصیب اللہ بازئی نے فیڈرل انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز بل 2023 منظوری کیلئے سینیٹ میں پیش  کیا۔ نگراں وفاقی وزیر  مرتضی سولنگی نےفیڈرل انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز بل 2023  کی مخالفت کردی ۔

وفاقی وزیر کی مخالفت کے باوجود بل پیش کرنے کی تحریک منظور کر لی گئی۔

سینیٹر فدا محمد نےپاکستان انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ  اینڈ ٹیکنالوجی بل 2023  منظوری کیلئے سینیٹ میں پیش  کیاجسے وفاقی وزیر مرتضیٰ سولنگی کی مخالفت کے باوجود منظورکرلیاگیا۔

 سینیٹر عبدالقادر نے علیز انسٹیٹیوٹ آف آرٹس اینڈ سائنسز کے قیام کا بل ایوان میں پیش کیا جسے قائمہ کمیٹی کوبھجوادیاگیا۔

سینیٹر مشتاق احمد  کاکہنا تھا کہ سرکاری ملکیتی ادارے عوام کے ٹیکس کا 458روپے کھا رہے ہیں ۔سرکاری ملکیتی اداروں کی کارکردگی صفر ہے ۔سرکاری ادارے عوام کو سہولت دینے میں ناکام ہو گئے ہیں ۔ پاکستان میں سرمایہ غریب سے امیر کی طرف جاتا ہے ۔موجودہ ماڈل غریبوں کا نوالہ چھیننے والا اور امیروں کو نوازنے والا ہے ۔ایف بی آر کے دس ہزار ملازم ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کراتے ۔ پاکستان کی چالیس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے ۔ پاکستان میں غربت بڑھ رہی ہے جبکہ جنوبی ایشیاء میں فی کس آمدن بڑھ رہی ہے ۔ پاکستان کے سرکاری ادارے ایشیاء کے بدترین ادارے ہیں ۔

مشتاق احمد کا مزید کہنا تھاکہ سرکاری ملکیتی اداروں کا خسارہ کل جی ڈی پی کا دس فیصد تک پہنچ گیا ہے ۔جو ریاستی ادارے چل نہیں سکتے ان کی نجکاری کر دی جائے۔

سینیٹرکامل علی آغاکاکہنا تھا کہایک ہی کام کے یے تین تین ادارے بنائے گئے ہیں ۔اداروں میں کام ہو نہیں رہا ۔تمام اداروں سے متلعق ہاؤس میں بحث کی جائے 

سفارشات تیار کی جائیں کہ کس ادارے کو رہنا چاہیے ۔روز روز کے خرچ سے ہمارے اور بوجھ بڑھ رہا ہے ۔ساڑھے چار سو ارب کا بوجھ پڑ رہا ہے ۔

 نگران وفاقی وزیر مرتضی سولنگی کا کہنا تھاکہ سرکاری ملکیتی اداروں میں کچھ منافع بخش ہیں اور کچھ نقصانات کررہے ہیں۔ان سرکاری ملکیتی اداروں پر مختلف رائے پائی جاتی ہے۔کچھ ان مسائل کا حل نجکاری کو کہتے ہیں کچھ بورڈز کی تشکیل نو اور اصلاحات حل کہتے ہیں۔اب تک سرکاری ملکیتی اداروں کے نقصانات کا تخمینہ 730 ارب روپے لگایا گیا ہے۔کچھ منافق بخش ادارے 570 ارب روپے کا منافع بھی دے رہیں۔اگر دیکھا جائے تو سرکاری ملکیتی اداروں کا مجموعی خسارہ 160 ارب روپے تک بنتا ہے ۔دیکھا جائے تو سرکاری ملکیتی اداروں کا خسارہ اتنا زیادہ نہیں ہے۔

سینیٹر صابر شاہ کا سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھاکہ ہمارے کئی ادارے کئی عرصہ سے ناکامی سے دوچار ہیں۔نجکاری کی بات ہوتی ہے لیکن وہ کونسے ہاتھ ہیں جو ریلوے،  پی آئی اے اور اسٹیل ملز کی نجکاری کو آگے بڑھنے نہیں دے رہا ہے۔پی آئی اے کے اندر ہماری ضروریات سے بڑھ  کرعملہ ہے اور افسوس ہے کچھ لوگ تنخواہیں گھروں میں لے رہے ہیں۔اسٹیل ملز کے بھی کئی ہزار ملازمین گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں لے رہے ہیں۔ہماری معیشت تباہ ہورہی ہے اور کوئی عملی اقدام نہیں ہورہا ہے۔

 

مزیدخبریں