ایک نیوز: پی ٹی آئی کا بلے کا نشان واپس لینے کیلئے دائر درخواست میں پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا ہے۔
کیس کی سماعت پشاور ہائیکورٹ کے جج جسٹس کامران حیات کی عدالت میں ہوئی۔ بیرسٹر علی ظفر نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا انٹراپارٹی انتخابات کے حوالے سے فیصلے کا اختیار ہی نہیں ہے، قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کو تمام تر دستاویز فراہم کر دی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کا پہلا بڑا نقصان یہ ہوا کہ پی ٹی آئی کو بلا نشان نہیں مل سکے گا، اس فیصلے سے پی ٹی آئی آٹھ فروری کے انتخابات میں حصہ بھی نہیں لے سکے گی۔
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ ’الیکشن کمشن کا آرڈر غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ حالات ایسے پیدا کیے جا رہے ہے کہ جس میں لگتا ہے کہ اب ہم سیاسی جماعت کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔‘
پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کالعدم اور پارٹی نشان واپس لینے کے الیکشن کمیشن فیصلے کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی،جسٹس کامران حیات میاں خیل نے درخواست پر سماعت کی،پی ٹی آئی کے وکلا علی ظفر، بیرسٹر گوہر خان، بابراعوان روسٹرم پر آگئے۔
وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ الیکشن کمیشن نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے،پی ٹی آئی کو کہا گیا کہ 20 دن کے اندر انتخابات کرائیں،3 دسمبر کو انٹراپارٹی انتخابات کئے گئے،الیکشن کمیشن نے مانا کہ انٹراپارٹی انتخابات ہوئے ہیں،انٹراپارٹی انتخابات پشاور میں ہوئے،الیکشن کمیشن نے انتخابات کے بارے میں کہا کہ ٹھیک ہوئے ہیں،الیکشن کمیشن نے سرٹیفکیٹ بھی دے دیا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے کہاکہ انتخابات ہوئے لیکن جس نے کرائے وہ ٹھیک نہیں ہے،الیکشن کمشنر پر اعتراض آگیا اور ہمارے انتخابات کالعدم قراردیئے گئے،الیکشن کمیشن کا آرڈر غیرقانونی اور غیرآئینی ہے،الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے انتخابی نشان بیٹ واپس لے لیا،اب ہم انتخاتابات میں سیاسی جماعت کی حیثیت سے حصہ نہیں لے سکتے۔
قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا، پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر علی ظفر نے درخواست دائر کی جس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے اور آج ہی سماعت کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر خان اور بیرسٹر علی ظفر پشاور ہائیکورٹ پہنچے جہاں انہوں نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی۔ درخواست میں الیکشن کمیشن اور انٹرا پارٹی الیکشن کو چیلنج کرنے والوں کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
دائر کردہ درخواست کے متن کے مطابق جن لوگوں نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کو چیلنج کیا ہے وہ پارٹی ممبر ہی نہیں ہیں، الیکشن کمیشن کو پارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے طریقے سے متعلق فیصلہ دینے کا اختیار ہی نہیں ہے۔
پی ٹی آئی نے درخواست کے ذریعے عدالت سے استدعا کی ہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دے کر بلے کا نشان واپس لے لیا ہے، عدالت سینئر ججز پر مشتمل بینچ بنائے اور آج ہی سماعت کے لیے مقرر کرے۔
واضح رہے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیتے ہوئے پارٹی انتخابی نشان واپس لے لیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن قانونی طریقہ کار کے مطابق کروانے میں ناکام رہی اور انتخابی نشان رکھنے کی اہلیت کھوچکی ہے۔ جس ہر پاکستان تحریک انصاف نے عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن امیدواروں کی انتخابی نشانات کے ساتھ حتمی فہرست 13 جنوری کو شائع کرے گی، پی ٹی آئی کے پاس 13 جنوری سے قبل عدلات سے ریلیف لینے یا کوئی اور حکمت عملی اپنانے کا وقت موجود ہے۔