ایک نیوز: فوکل پرسن برائے معیشت پاکستان تحریک انصاف مزمل اسلم نے کہا ہے کہ شہباز شریف نے عوام سے سفاک جھوٹ بولا،اسحاق ڈار سے پوچھے جاتے جاتے عوام کو مہنگائی کم ہونے کی جو جھوٹی خوشخبری دی وہ نظر کیوں نہیں آرہی،ماضی کی حکومتوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے سستی بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں پر توجہ نہیں دی،یہ بحرانی کیفیت وقتی نہیں مسلسل برقرار رہے گی جو پاکستان کا سب سےطویل بحران ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق فوکل پرسن برائے معیشت پاکستان تحریک انصاف مزمل اسلم کا مہنگائی کے حوالے سے خصوصی ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ پاکستانی اس وقت تکلیف دہ حالات سے گزر رہے ہیں، پچھلے سال پورے ملک سے 7 ہزار ارب روپے ٹیکس جمع کیا گیا،پہلے حکومت عوام سے بجلی کی مد میں لگ بھگ 3 ہزار ارب روپے جمع کرتی تھی،بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد یہ تقریباً 4 ہزار دو یا تین سو ارب کے قریب ہوگا،حالیہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ تقریباً 13 سو ارب روپے ہے۔
مزمل اسلم نے کہا کہ 40 روپے پیٹرول کی قیمت میں اضافے سے ایک ہزار ارب کا اضافہ ہوا ہے،حکومت عوام سے ایک سال میں تقریباً 22 سو ارب روپے بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافی مانگ رہی ہے،جو مہینے کا 180 ارب روپے بنتا ہے،کوئی بھی حکومت 2 سو یا تین سو ارب روپے کا منی بجٹ لاتی ہے اس پر بھی عوام کی چیخیں نکل جاتی ہیں،حکومت نے بغیر کسی حساس تجزیے کے عوام پر 22 سو ارب روپے ڈال دیے۔
مزل اسلم نے کہا کہ شہباز شریف نے ایک مہینہ پہلے کہا بجلی کی نئی قیمتوں کا اطلاق 64 فیصد عوام پر نہیں ہوگا،ان سے کوئی پوچھے وہ 64 فیصد عوام کہاں چھپا رکھی ہے جن پر بجلی کے بل نہیں بڑھے،شہباز شریف نے عوام سے سفاک جھوٹ بولا،اسحاق ڈار سے پوچھے جاتے جاتے عوام کو مہنگائی کم ہونے کی جو جھوٹی خوشخبری دی وہ نظر کیوں نہیں آرہی،اگر مہنگائی کم ہونا اسے کہتے ہیں تو پرانے دنوں والی مہنگائی زیادہ بہتر ہے،پورا شریف خاندان آئی ایم ایف پروگرام پر ایسے ناچ رہا تھا جیسے انھوں نے عوام کو پتہ نہیں کیا تحفہ دے دیا ہو۔
مزمل اسلم نے کہا کہ یہ کہتے تھے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا، ملک کا تو پتہ نہیں لیکن عوام کو پوری طرح دیوالیہ کردیا گیا ہے،پاکستان میں سب سے کم بجلی بلوچستان میں استعمال کی جاتی ہے،جھوٹ بولا جاتا ہے کہ بلوچستان، کوئٹہ اور پشاور میں بجلی چوری ہوتی ہے،سچ تو یہ ہے بلوچستان کی عوام کو بجلی ملتی ہی نہیں ہے،خیبرپختونخواہ کم بجلی فراہم ہونے والے شہروں صوبوں میں دوسرے نمبر پر ہے،خیبرپختونخواہ میں 198 یونٹ فی کس بجلی فراہم کی جاتی ہے،تیسرے نمبر پر سندھ جہاں فی کس بجلی 231 دی جاتی ہے،چوتھے نمبر پر پنجاب آتا ہے جہاں فی کس 320 یونٹ بجلی دی جاتی ہے جو تمام صوبوں سے زیادہ ہے،باقی صوبوں میں اگر 30 فیصد بجلی چوری ہوتی ہے اور پنجاب میں 10 فیصد تو بھی بجلی چوری ہونے کا مجموعی حجم سب سے زیادہ پنجاب میں ہے،جسکی وجہ سے پوری قوم کو اضافی بجلی کی قیمتیں چکانی پڑتی ہیں،ہماری نسلوں کو مقروض کردیا گیا ہے۔
مزمل اسلم نے کہا کہ اس سال بجلی کی اضافی قیمتوں سے حاصل ہونے والے چار ہزار 2 سو ارب روپے میں سے 2 ہزار ارب روپے بجلی گھروں کو کرایے کی مد میں دینے ہیں، اس میں جو ایندھن استعمال ہو رہا ہے وہ صرف 800 سے 900 ارب روپے کا ہے باقی سب ٹیکسز ہیں،یہ 2 ہزار ارب روپے وہ ہیں جو درآمدی ایندھن کی مد میں جانے ہیں،ایک سال میں 184 ارب روپے ایل این جی پلانٹ کے کرایوں کی مد میں جانا ہے،تقریباً 4 سو ارب روپے درآمدی کوئلے کے کرایوں کی مد میں ادا کرنا ہے،ہوا کے پلانٹ پر بھی سالانہ 175 ارب روپے کرایا ادا کرنا ہے جس پر لاگت بھی کم لگتی ہے، نیوکلیئر پاور پلانٹ جو سب سے سستی بجلی پیدا کرتا ہے اسکے کرایوں کی مد میں 443 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔
مزمل اسلم نے مزید کہا کہ اس سےبڑا ظلم کیا ہوگا عوام سے ایل این جی پلانٹ جو (بند بھی پڑا ہو بے شک اس پلانٹ سے بجلی لیں یا نہ لیں) کا فی یونٹ 28 روپے کرایے کی مد میں وصول کیا جاتا ہے،کوئلہ اور فرنس آئل تقریباً 24 سے 25 روپے فی یونٹ ہے، نیوکلیئر فی یونٹ 17 روپے کرایے کہ مد میں دے رہے ہیں جبکہ اسکا مادہ فیول ایک روپے ہے یعنی ہمیں 18 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی فراہم کی جا رہی ہے، مقامی کوئلہ اور پانی سے پیدا ہونے والی بجلی کی مد میں ہم سب سے کم کرایہ ادا کرتے ہیں جو 6 سے ساڑھے 6 روپے ہے،ایل این جی 23 روپے، فرنس آئل 23،کوئلے پر 17 روپے اور مقامی گیس کے ایندھن پر 8 روپے فی یونٹ کی لاگت آتی ہے،عوام سے اتنا ٹیکس اور بھاری قیمتوں کے باوجود صرف 100 یونٹ پر ریلیف دیا گیا،ماضی کی حکومتوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے سستی بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں پر توجہ نہیں دی،یہ بحرانی کیفیت وقتی نہیں مسلسل برقرار رہے گی جو پاکستان کا سب سےطویل بحران ہوگا۔