ایک نیوز: دنیا بھرمیں ڈپریشن کا مرض، جوان اور بوڑھوں کو تیزی سے نگل رہا ہے۔ اب ماہرین کا اصرار ہے کہ مثبت فکر کی عادت ڈالنے، منفی سوچ کو دور کرکے اور امید کا سہارا لیتے ہوئے ڈپریشن کے طویل اور سخت حملے کو ختم یا کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔
اس تحقیق سے پاکستان سمیت دنیا بھر کی عوام کو امید ملی ہے کیونکہ امریکہ میں 8 فیصد سے زائد آبادی شدید ڈپریشن کی شکار ہے جبکہ پاکستان میں بھی یاسیت بڑھ رہی ہے۔ یہاں تک کہ علاج اور ادویہ کے بعد بھی ڈپریشن لوٹ آتی ہے اور معمولاتِ زندگی کو شدید متاثر کرتی ہے۔
’سائیکوپیتھالوجی اور کلینیکل سائنس‘جرنل میں شائع رپورٹ کے مطابق ڈپریشن کے خلاف جنگ میں ایک نیا ہتھیار سامنے آیا ہے۔ یہ ہتھیار مثبت فکر اور طرزِ عمل ہے اور امید کی ایک کرن بھی ہے۔ اسی اسلحے کی بدولت ہم مستقبل میں ڈپریشن کے حملے کو کمزور کرکے اپنا مستقبل روشن کرسکتے ہیں۔
جامعہ کیلیفورنیا لاس اینجلس کی ایلینہ وین اور ان کے ساتھیوں نے 44 تحقیقات اور سروے کا جائزہ (میٹا اسٹڈی) لیا ہے۔ جس میں2000 سے زائد ایسے افراد شامل تھے جو شدید ترین ڈپریشن کے شکار تھے۔ اس کے ساتھ کل2285 ایسے افراد کا موازنہ کیا گیا جو دماغی صحت مند تھے۔ ان میں ڈپریشن اور جذبات پروسیس کرنے کے عمل کا مکمل جائزہ لیا گیا تھا۔
جائزے پر معلوم ہوا کہ ڈپریشن کی دلدل میں دھنس جانے والے افراد ایک عرصے تک منفی فکر اور معاملات میں تاریک پہلو دیکھنے کے عادی تھے۔ یہ عادت جڑ پکڑگئی، پھر لوگ دن کے غالب حصے میں ناخوش رہنے لگے اور دھیرے دھیرے ڈپریشن کے مکمل مریض بن گئے۔ انہوں نے خوش ہونے اور روشن پہلو پر سوچنے کی کوشش بھی چھوڑ دی تھی۔
یہ ایک چشم کشا تحقیق ہے جسے ڈپریشن کے علاج میں مدد مل سکتی ہے۔ ماہرین نفسیات کو چاہیے کہ معالجے کے طورپر ایسے مریضوں کو مثبت فکر کی جانب لایا جائے۔ اس میں کامیابی ملتی ہے اور یوں ڈپریشن کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
تحقیق کے مطابق اس طرح ڈپریشن کے دوبارہ حملے سے بھی بچاجاسکتا ہے۔ تاہم ضروری ہے کہ خود مریض اپنی صحت کی فکر کرے اور زندگی میں مثبت پہلوؤں پر ضرور غور کرے۔