ریپ کیس میں ایف آئی آر چاہے تاخیر سے ہو، ثبوت بروقت اکٹھے ہونے چاہئیں،قائمہ کمیٹی 

ریپ کیس میں ایف آئی آر چاہے تاخیر سے ہو، ثبوت بروقت اکٹھے ہونے چاہئیں،قائمہ کمیٹی 
کیپشن: Even if FIR in rape case is delayed, evidence should be collected in time, Standing Committee

ایک نیوز: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں زور دیا گیا ہے کہ ریپ کیسز میں بروقت انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور اس کے لیے قانونی اصلاحات عمل میں لائی جائیں۔ 

تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس ہوا۔ سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ ریپ کی ایف آئی آر سے پہلے  فوری متاثرہ افراد کا طبی معائنہ ہونا چاہئے، ابتدائی شواہد کے بعد مقدمے کا اندراج ہونا چاہیے، ڈی این اے میں انتہائی تاخیر کی جاتی ہے، ڈی این اے کے سیمپل فوری جمع ہونے چاہئیے۔

لاء افسر نے کہا کہ ریپ کیس میں سیمپل جمع کرنے میں تاخیر سے ثبوت ختم ہوجاتے ہیں۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ ایف آئی آر چاہے بعد میں ہو لیکن سیمپل فوری جمع ہونے چاہئیں۔

لاء افسر نے بتایا کہ ریپ کیس میں خون بہنے یا اسٹول پاس ہونے سے شوائد ضائع ہوجاتے ہیں۔ سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ ڈی این کے سیمل پہلے ہی محفوظ ہوتے ہیں ایکٹ میں پروسیجر لکھ دیا گیا ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ قانون میں لکھ گیا ہے کہ ڈی این اے کا سیمپل تھانے میں گریڈ 19 کا افسر سنبھال کر رکھے گا لیکن تھانے میں گریڈ انیس کا آفیسر ہوتا ہی نہیں ہے یہ غیر ضروری باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔ کل کو کوئی کہے گا گریڈ 19 کے افسر نے سیمپل محفوظ نہیں کیا تو وہ مجرم بچ جائے گا اسی نکتے پر۔ ڈی این اے کا ٹیسٹ ہونا چاہئیے لیکن ناخن سے لینا ہے یا کہاں سے لینا ہے یہ تفتیش کرنے والوں پر چھوڑ دیں۔

سینیٹر ہمایوں مہمند نے مطالبہ کیا کہ ریپ کے کیس میں 72گھنٹوں میں ڈی این اے ٹیسٹ سمیت تمام چیزوں کا طبی معائنہ ضروری قرار دیا جائے۔ جس پر اعظم نذیرتارڑ نے کاہ کہ ٹائم کی مدت کا تعین نہ کریں بعض مرتبہ کئی دنوں بعد سیمپل کے طور پر ایک بال مل جاتا ہے۔