چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ پیکا آرڈیننس کے خلاف درخواستوں کو یکجا کر کے سن رہے ہیں ، درخواست گزاروں میں پی ایف یو جے ، اے ین پی ایس ، سی پی این ای ، ایمنڈ ، لاہور ہائیکورٹ بار کے مقصود بٹر اور سیاستدان فرحت اللہ بابر شامل ہیں۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودد اور ڈپٹی اٹارنی جنرل سید محمد طیب شاہ پیش ہوئے اور عدالت کو اٹارنی جنرل سپریم کورٹ میں مصروف ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہاں تین سوالات ہیں ، پہلا یہ کہ آرڈیننس بظاہر آرٹیکل 89 کی خلاف ورزی میں جاری ہوا، پیکا سیکشن 20 کا غلط استعمال ہو رہا ہے ، پولیٹیکل مباحثے ختم کرنے کیلئے یہ اختیار مسلسل غلط استعمال کیا جا رہا ہے ، تہمت لگانے کیلئے قانون پہلے سے موجود ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ترمیمی آرڈیننس میں اسٹی ٹیوٹس کو شامل کیا گیا ہے جیسا کہ ججز خود شکایت درج نہیں کر اسکتے ، اس ترمیم کے ذریعے رجسٹرار کو شکایت درج کرانے کا اہل بنایا گیا ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ججز خوفزدہ نہیں ہیں ، ادارے پر عوام کا اعتماد ضروری ہے ، حکومت کو چاہئے کہ وہ عدلیہ سے متعلق پریشان نہ ہو، ہمیں مثبت تنقید پر کوئی اعتراض نہیں ، اب یہ کون طے کرے گا کہ تنقید مثبت ہے یا منفی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پاکستان پینل کوڈ ( پی پی سی ) کے سیکشن 496 سی اس سے متعلق موجود ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس جرم کی سزا پانچ سال ہے جس کا اطلاق سوشل میڈیا پر تہمت لگانے والے پر بھی ہوگا ، پبلک آفس ہولڈر کیلئے تو معیارات ہی مختلف ہیں ، پبلک آفس ہولڈر تو خود کو پبلک سروس کیلئے پیش کرتا ہے۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے نے جو رپورٹ دیں وہ تو انٹرنیٹ پر صحافیوں کی سرویلنس کر رہے ہیں ، کسی جمہوری ملک میں سیلف سینسر شپ کیسے ہو سکتی ہے ؟، آرڈیننس لانے میں کیا عجلت تھی ؟، صرف اسی ایک نکتے پر آرڈیننس کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے ، کیوں نہ آرڈیننس کالعدم قرار دیا جائے ، دلائل شروع کریں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اٹارنی جنرل نے دلائل دینا تھے مگر انہوں نے صدارتی ریفرنس پر دلائل دینے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک میں جمہوریت و آئین موجود ہے ، پبلک آفس ہولڈر سوشل میڈیا سے کیوں پریشان ہیں ، آپ کو عالمی معیارات بھی ہیں، ہم اکیسویں صدی میں ہیں ، ملک کو پیچھے تو نہیں لے کر جانا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ منیر اے ملک نے انتہائی اہم نکتہ اٹھایا ہے ، جس دن آرڈیننس جاری ہوا اس دن قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا تھا۔