ایک نیوز: سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت جاری،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13رکنی فل کورٹ سماعت کر رہا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل کے پی روسٹم پر آئے،پہلے اٹارنی جنرل کو سنیں گے، چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو بات کرنے سے روک دیا، سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی روسٹم پر آ گئے۔
فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کردیا
صاحبزادہ حامد رضا نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا تھا، صاحبزادہ حامد رضا نے کاغذات نامزدگی میں وابستگی سنی اتحاد کونسل سے ظاہر کی تھی، مخصوص نشستیں ملیں تو کنول شوزب سنی اتحاد کونسل کی امیدوار ہونگی۔کیا کاغذات نامزدگی کیساتھ پارٹی ٹکٹ جمع کرایا گیا تھا؟ جسٹس منیب اختر کا استفسار۔وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے سے حامد رضا کو روکا جا رہا تھا، الیکشن کمیشن نے زبردستی آزاد امیدوار کا نشان الاٹ کیا۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ متناسب نمائندگی کے اُصول سے ہٹ کر نشستیں نہیں دی جا سکتیں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا فیصل صدیقی صاحب اگر آپ نے کاغذات فائل کئےہوتے تو سوالات نہیں پوچھنے پڑتے، کاغذات کے بغیر آپ کو بات نہیں کرنے دیں گے۔
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کاغذات نامزدگی کا ریکارڈ الیکشن کمیشن سے مانگا گیا تھا، الیکشن کمیشن نے چیئرمین سنی اتحاد کونسل حامد رضا کے کاغذات نامزدگی پیش کر دیئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حامد رضا کے کاغذات نامزدگی کی کاپیاں کروا کر تمام ججز کو دینے کی ہدایت کردی ۔
مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیئے کہ الیکشن پروگرام الیکشن ایکٹ کے تحت جاری کیاگیا، کاغذات نامزدگی تاریخ سے قبل جمع کرانا ضروری ہوتا،تاریخ میں توسیع بھی کی گئی، 24 دسمبر تک مخصوص نشستوں کی لسٹ کی تاریخ جاری جی گئی، الیکشن کمیشن کنفرم کرےگا، سنی اتحاد نے مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ جمع نہیں کروائی۔
الیکشن ایکٹ سیکشن 206 کے مطابق سیاسی جماعتوں کو شفاف طریقہ کار سے نشستوں کے لیے لسٹ دینی ہوتی، سنی اتحاد کی طرف سے کسی امیدوار نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا ،جس کی وجہ سے خواتین کی لسٹ موجود نہیں اور جمع نہیں کرائی گئی، جمع کروائی گئی لسٹ تبدیل نہیں کی جاسکتی، الیکشن کمیشن کنفرم کردےگا،5رکنی پشاور ہائیکورٹ کے بینچ نے دونوں کیسز میں سنی اتحاد کے خلاف فیصلہ دیا، وکیل مخدوم علی خان سنی اتحاد نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ آزادامیدواروں شامل ہوئے ہیں۔
وکیل مخدوم علی خان نے الیکشن ایکٹ کے مختلف سیکشنز کا حوالہ دیا۔
مخصوص نشستیں حاصل کی گئی جنرل سیٹوں پر انحصار کرتی ہیں، آزادامیدوار تین دنوں کے اندر کسی جماعت میں شامل ہوں تو مخصوص نشستوں کے لیے گنا جائےگا۔سپریم کورٹ متناسب نمائندگی کا اصول جنرل سیٹوں کی تعداد کے مطابق ہوتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی اور جے یو آئی سمیت دیگر جماعتوں کو مخصوص نشستیں دی گئیں، پی ٹی آئی امیدواروں کو مخصوص نشستیں دینے کیلئے الگ اصول اپنایا گیا۔
وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیئے پی ٹی آئی ارکان آزاد ہوکر سنی اتحاد کونسل میں چلے گئے، پی ٹی آئی کے دو ارکان نے الیکشن کمیشن کو کہا کہ ہمیں آزاد ڈکلیئر کیا جائے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس تو ارکان اسمبلی کو آزاد ڈکلیئر کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ ووٹر کے حق کا تحفظ کرے، حقائق سب کو کھل کر بتانے چاہئیں۔
جسٹس منیب اخترنے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے کیسے اخذ کیا کہ امیدوار تحریک انصاف کے نہیں بلکہ آزاد ہیں۔
الیکشن کمیشن نے کیسے آزاد امیدوار ظاہر کردیا؟ اہم سوال ہی یہ ہے، جسٹس منصورعلی شاہ
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ کسی امیدوار کے ساتھ زبردستی نہیں کی جاسکتی کہ نوٹیفیکیشن کے تین روز بعد اگر وہ کوئی اور جماعت میں شامل ہوجائے، الیکشن کمیشن کہہ سکتے کہ امیدوار آزاد ہیں یا کسی پارٹی سے ہیں، الیکشن کمیشن نے صرف کاغذات میں امیدوار کی سیاسی جماعت سے وابستگی دیکھنی ہے۔
عدالت کا کہنا ہے جو کچھ ملک میں ہو رہا تھا وہ تلخ حقیقت اور سب کے سامنے ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی امیدوار پارٹی وابستگی ظاہر کرکے پیچھے نہیں ہٹ سکتا تو الیکشن کمیشن کیسے اسے آزاد قرار دے سکتا ہے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ تحریک انصاف کیس میں فریق ہے نہ کوئی منتخب نمائندہ، عدالت کے سامنے کیس سنی اتحاد کونسل کا ہے کہ مخصوص نشستیں دی جائیں، جو کیس ہمارے سامنے ہی نہیں اس حوالے سے بحث کیوں کی جا رہی ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے اچھے بھی ہونگے برے بھی، جو فیصلہ چیلنج ہی نہیں ہوا اسے اچھا یا برا کیسے کہ سکتے ہیں؟ کوئی پریشر تھا یا نہیں تھا، دنیا کو کیا معلوم، ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، ججز اس پر فیصلہ کرتے ہیں جو ریکارڈ میں موجود ہو نہ کہ دنیا کے علم میں ہو۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اعلی ترین عدالت ہوتے ہوئے سپریم کورٹ کا کام ہے کہ عوام حق رائے دیہی کا دفاع کرے۔
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا بنیادی سوال یہی ہے کہ الیکشن کمیشن کسی کوازخود کیسے آزاد قرار دے سکتا ہے۔آئین کا دفاع کرنا ہے تو آئین کے مطابق ہی شفاف انتخابات ضروری ہیں، بنیادی حقوق میں ووٹ کا حق اہم ترین ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ مجھےپہلے دن سے تشویش تھی کہ تحریک انصاف کیوں نہیں سامنے آرہی ہے۔
اس پرجسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لاکھوں افراد نے ووٹ دیا، ان کے حق کا تحفظ کرنا ضروری ہے، الیکشن کمیشن نے کیسے کہہ دیا کہ امیدوار آزاد ہیں، الیکشن کمیشن کے پاس تو ایسا اختیار نہیں، امیدواروں نے خود کو تحریک انصاف سے الگ نہیں کیا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سب سے اہم ووٹ کا حق ہے، انتخابات صاف شفاف ہونے چاہیے، سوالات توبہت سنجیدہ اٹھے ہیں، انتخابات کے طریقہ کار پر ہی سوالات اٹھے ہیں، سپریم کورٹ کی ڈیوٹی ہے کہ کوئی سیاسی انجینئرنگ نہیں ہوئی، اگر انتخابات شفاف نہیں ہوئے تو آئین کی خلاف ورزی ہورہی اور ہم بھی اپنے حلف کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔
جسٹس عرفان سعادت نے استفسار کیا کہ تحریک انصاف اور تحریک انصاف نظریاتی میں کیا فرق ہے؟کبھی تحریک انصاف ہوجاتی، کبھی تحریک انصاف نظریاتی ہوجاتی، فرق بتائیںَ۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پہلے دن سے کہہ رہا تھا تحریک انصاف نے ایسا کیوں کیا؟ اپنی پارٹی میں رہنا چاہیے تھا، سنی اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا، ہم نے تو نہیں کہا کہ سنی اتحاد میں شامل ہوں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ انتخابات کو سپریم کورٹ میں دیکھا جارہا، الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد کیسے ظاہرکیا؟ کسی سیاسی جماعت کی نہیں بلکہ الیکشن کے حوالے سے بات کررہے ہیں۔
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اپنے موقف پر قائم ہوں کہ پارٹی وابستگی ظاہر کرکے جماعت تبدیل کرنے والا نااہل تصور ہوگا، سارا معاملہ شروع ہی سیاسی جماعت کے امیدواروں کو آزاد قرار دینے سے ہوا، کیسے ممکن ہے کہ اس بنیادی سوال کو چھوڑ دیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر کوئی ممبر استعفیٰ دےدے یا انتقال کرجائے تو ایسا تو نہیں پارلیمنٹ کام کرنا چھوڑ دےگی۔
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اگر کوئی جج ریٹائر ہوجائے تو سپریم کورٹ کام کرنا تھوڑی چھوڑ دےگی؟ اگر کوئی ممبر نہیں یا نشست خالی ہے تو ضمنی انتخابات ہو جائیں گے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سنی اتحاد کو سیاسی جماعت ہی ٹریٹ کیاگیاتھا، تمام سیٹیں بانٹ دی گئی تھیں۔
سوال ہی یہ ہے کہ آپ کو مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟ تحریک انصاف ہمارے سامنے نہیں، جسٹس عائشہ ملک کا استفسار
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تحریک انصاف تو سنی اتحاد کو سپورٹ کررہے، کیس ہمارا سنی اتحاد کا ہے، تحریک انصاف کا نہیں، خود سے نیا کیس نہ بنائیں، میں تو بار بار بول کے تھک گیا ہوں کہ پی ٹی آئی ہمارے سامنے کیوں نہیں آئی،
سپریم کورٹ اگر 86 آزادامیدواروں سے آپ کو فائدہ ہوگا تو کس متناسب کے ساتھ ہوگا؟ جسٹس عائشہ ملک کا استفسار
کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کردیا گیا۔
وکیل مخدوم علی خان دلائل دیئے کہ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کو انتخابات سے قبل مخصوص نشستوں کی لسٹ مہیا کرنا ہوتیں، جو سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ نہیں لے رہیں، ان پر مخصوص نشستوں کی لسٹ مہیا کرنا لازم نہیں ہے، انتخابات میں حصہ لینے والی جماعت کو مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ بھی جمع کرانی ہوتی ہے۔
جسٹس منیب اخترنے استفسار نے کہا کہ ہر انتخابات کو سیکرٹ بیلٹ کے تحت ہونا چاہئے، سیکرٹ بیلٹ کہاں ہے؟ ووٹرز کو معلوم ہوتا ہے کہ ووٹ دینے والی جماعت کی مخصوص نشستوں کی لسٹ کیاہے،ہم ججز اور الیکشن کمیشن بھی آئین کی پاسداری کا حلف لیتاہے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کوئی نہیں کہتاکہ ووٹرز سے ان کا حق چھین لیا جائےگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ خواتین کی نمائندگی کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتاہے ، اقلیتوں اور خواتین کو نمائندگی دینا اصل مقصد ہے، آئین میں ہر لفظ کو ایک معنی دینا ضروری ہے۔
آئین میں الیکشن میں منتخب ہونے کا لفظ لکھا ہے، وکیل مخدوم علی خان
جسٹس منیب اختر کا مخدوم علی خان سے مکالمہ
صدر، سینٹ سب کے انتخابات کے لئے الگ الیکٹوریٹ دیاہوتاہے،کیس میں لگ رہا جیسے انتخابات ہو ہی نہیں رہے لیکن آپ کہہ رہے کہ الیکشن ہورہاہے، آپ مجھے دکھا دیں کہ کوئی الیکشن ہورہاہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ نے کہا کہ اگرچھوٹی باتوں میں پھنس گئے تو دیگر کو سن نہیں پائیں گے، آج ہی دلائل ختم بھی کرناہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام کے حقوق کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی، ہمیں درخواستگزاروں نے بتایا کہ اہم درخواستیں زیرالتوا ہیں، جسٹس اطہر من اللہ درخواستیں کیوں زیرالتوا ہیں؟ اس کا جواب عدالت دے۔
وکیل مخدوم علی خان زن جسٹس اطہر من اللہ کو جواب دیا وکیل تو نہیں دے سکتا ہے۔سیاسی جماعت اگر خواتین یا اقلیتی نشستوں کے لیے لسٹ نہیں دیتی تو کیا پارلیمنٹ میں سیٹ خالی رکھی جائےگی، انتخابات میں سیاسی جماعت ہی صرف سیٹ جیت سکتی ہے۔
سیاسی جماعت کون ہیں؟ جسٹس عائشہ ملک کا وکیل سے استفسار ۔مخصوص نشستوں کی لسٹ دینے والی سیاسی جماعت کہلاتی ہے، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یعنی جو لسٹ نہیں مہیا کرتی تو اسے سیاسی جماعت نہیں کہیں گے۔
اگر سیاسی جماعت نے انتخابات سے قبل لسٹ دی نہیں اور انتخابات کےبعددےرہےتومزیدغیرجمہوری ہوجائےگا،وکیل مخدوم علی خان
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ حالیہ انتخابات میں آزاد امیدواروں نے دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت سیٹیں زیادہ جیتیں، مجھے مسئلہ ہے کہ کس حساب سے سیٹیں بانٹی جائیگی۔قومی اسمبلی میں ن لیگ کو 17 اور بعد میں مزید 10 مخصوص نشستیں دی گئیں، آپ کہہ رہے اگرسنی اتحاد سیاسی جماعت رہتی تو 17 سیٹیں ہوتیں، اب جب نہیں تو 27 سیٹیں ن لیگ کی ہوگئیں۔
پارلیمنٹ میں دو طریقہ کار سے سیٹیں بانٹی گئی ہیں، جسٹس منیب اختر
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آزادامیدوار نے ایسی سیاسی جماعت شامل ہونا ہوتا جس نے کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہو۔
جسٹس منیب اختر نے جواب دیا آئین کیمطابق عوام کی منشا پر ہی عمل ہونا ہے، ایک جنٹلمین نے کہہ دیا تھا آئین کیا ہے کاغذ کا ٹکڑا چاہو تو پھاڑ دوں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ استفسار کیا کہ کیا صرف یہی ضروری ہے کہ سیٹیں زیادہ ہوں یا انتخابات میں خواتین، اقلیتوں کی نمائندگی پر بات کرنا ضروری ہے، اقلیتی، خواتین کسی سیاسی جماعت میں ہیں یا نہیں لیکن ان کی نمائندگی کو محفوظ کرنا ہے، تاریخ پر بات کرنی چاہیے اور تاریخ سے سیکھنا چاہیے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اگر دو سیاسی جماعت ہیں تو انہیں میں مخصوص نشستیں بانٹ دی جائیں گی۔
اس پر جسٹس عائشہ ملک نےکہا کہ مخصوص نشستوں سے انتخابات کا رزلٹ آسانی سے تبدیل کیا جاسکتاہے، دو سیاسی جماعتیں ہیں تو انہیں میں مخصوص نشستیں بانٹ دی جائیں گی۔
مخصوص نشستیں بانٹنے کا طریقہ کار ہر انتخابات میں تبدیل ہوتا رہتاہے، جسٹس جمال مندوخیل
وکیل مخدوم علی خان نے کہا میں سیاسی جماعتوں کی لسٹ دیکھنے کا نہیں کہہ رہا، آئین کہہ رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی لسٹ دیکھیں،
اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ سسٹم کی خوبصورتی ہے کہ اقلیتی بھی آپ کی سیاسی جماعت میں آکر بیٹھیں، اگر سیاسی حریف نہیں پسند تو سسٹم کی خوبصورتی ہے کہ دونوں حریف ساتھ بیٹھیں گےہ
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اقلیتی، خواتین کو ضرور پارلیمنٹ میں نمائندگی ملنی چاہیے، ماضی کے انتخابات میں ن لیگ ، پیپلزپارٹی کہیں نہ کہیں متاثرہ رہی لیکن سپریم کورٹ مدد کے لیے سامنے نہیں آئی، جیسا 2018 میں ہوا اب بھی ویسا ہی ہورہاہے، متاثرہ ایک ہی سیاسی جماعت رہی، ہم نے اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔سپریم کورٹ اس عدالت کے پاس آرٹیکل 187 کے تحت مکمل انصاف کا اختیار ہے،اس عدالت کے پاس آرٹیکل 184 تین کا اختیار بھی موجود ہے، جو آج ہو رہا ہے شاید کل پھر اس عدالت کو اس پر پچھتاوے کا اظہار کرنا پڑے گا۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ حقیقت یہ ہے سنی اتحاد لسٹ دی نہ انتخابات میں حصہ لیا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ 2 فروری 2024 والا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ کی غلط تشریح پر ہے، کیا ہمیں الیکشن کمیشن کے غلط تشریح پر مبنی فیصلہ نہیں دیکھنا چاہیے یا نظر انداز کردینا چاہیے۔
مخصوص نشستیں حاصل کرنے والی جماعتوں کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہوگئے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندربشیر روسٹرم پر آکر دلائل شروع کیے۔
وکیل سکندربشیر نے دلائل دیئے کہ انتخابات کاشیڈول ایک اہم دستاویز ہوتا جس میں مخصوص اورجنرل سیٹیں شامل ہوتیں، جنرل اور مخصوص نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی کے لیے ایک تاریخ دی جاتی، مخصوص نشستوں کابھی نوٹیفکیشن ہوتاہے، فارم 33 جنرل اور مخصوص نشستوں کے لیے ہوتاہے، ریٹرننگ افسران مخصوص، جنرل نشستوں کے فارم 33 کی سکروٹنی کرتےہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا قانون آپ کو اختیار دیتا ہے کہ آپ طے کریں کوئی آزاد امیدوار ہے یا پارٹی کا؟ کیا الیکشن کمیشن فیصلہ کرےگا کہ امیدوار کی کس سیاسی جماعت سے وابستگی ہے؟
وکیل الیکشن کمیشن سکندربشیر نے کہا کہ فارم66 مخصوص نشستوں کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی جانب سے دی گئی لسٹ ہوتی ہے، جنرل اور مخصوص نشستوں کی لسٹ کا طریقہ کار بلکل ایک طرح کا ہے، کاغذات نامزدگی پہلی اسٹیج ہوتی ہے، خواتین، اقلیتوں کی سیٹوں کی اہمیت اتنی ہی ہے جتنی جنرل نشستوں کی ہے، خواتین کی مخصوص نشست وزیراعظم کے لیے بھی امیدوار ہوسکتاہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ایسا ممکن ہو سکتا کہ ایک ہی حلقے سے ایک ہی پارٹی کے دو امیدوار ہوں؟ کوورنگ امیدوار ہوتےہیں۔
وکیل سکندربشیر نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں، پارٹی سربراہ اپنے آئین کے مطابق پارٹی ٹکٹ دیتاہے۔
آپ کا مطلب بلے کا نشان کے فیصلے سے سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کیا؟ جسٹس منیب اختر
وکیل سکندربشیر نے کہا کہ ایسا نہیں ہے، معزرت اگر ایسا سمجھا، فیصلے کو کم سے کم پڑھ لیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیصلہ نہیں بلکہ قانون ہے، آج انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروائے تو کل ہو سکتے ہیں، ٰ میں حیران تھا کہ تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کررہے، ہزاروں کیسز پڑے ہیں، ایک ہی کیس کو تو نہیں سنیں گے۔