استغاثہ کی جانب سے مرتضیٰ قریشی کو سزائے موت دیے جانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے، مگر بلاآخر انھیں 12 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
انھیں 2011 میں (10 سال کی عمر میں) عرب سپرنگ کے دوران ہونے والے مظاہروں میں مبینہ شرکت کے الزام میں 2014 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
قریشی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سب سے کم عمر قیدی ہیں جنھیں مبینہ طور اس الزام میں حراست میں لیا گیا تھا کہ وہ اس سیاسی مظاہرے میں شریک ہوئے۔
ایک ویڈیو میں انھیں سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں دوسرے بچوں کے ساتھ سائیکلوں پر ایک احتجاجی ریلی میں دکھایا گیا۔
باقی عرب ممالک میں ہونے والی بغاوتوں سے سعودی عرب کی شیعہ اقلیت کو بھی حوصلہ ملا اور وہ سعودی حکام کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔
مگر سکیورٹی فورسز نے سخت کارروائیاں کرتے ہوئے اس شورش پر قابو پا لیا اور انھوں نے اس وقت اور اس کے بعد ہونے والے مظاہروں میں ملوث بے شمار افراد کو گرفتار کیا جن میں سے درجنوں کو پھانسی دے دی گئی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مرتضیٰ قریشی کو کئی سال تک بغیر کسی الزام کے حراست میں رکھا گیا۔
مرتضی کی پہلے اور بعد کی تصاویر ان کی کہانی بیان کرتی ہیں جب وہ گرفتار کیے گئے تو ایک بچے تھے، مگر اب آٹھ سال بعد وہ داڑھی والے نوجوان بن چکے ہیں۔
آخر کار جب مرتضیٰ کے خلاف مقدمہ چلایا گیا تو ان پر ایک انتہا پسند دہشت گرد گروپ سے تعلق رکھنے کا الزام لگایا گیا۔ ان پر اپنے بڑے بھائی کا ساتھ دینے کا الزام لگایا گیا جس نے مبینہ طور پر ایک پولیس سٹیشن پر پٹرول بم پھینکا تھا۔ استغاثہ نے اس کم عمر ترین قیدی کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کو ڈر تھا کہ مرتضی کو پھانسی دی جا سکتی ہے تاہم اب انہیں آٹھ سال کے بعد رہا کردیا گیا ہے۔