ایک نیوز: (شیخ سمیر سمی) چنیوٹ میں محرم الحرام میں یوم عاشورہ پر روایتی تعزیے لکڑی کے بنے 60 من وزنی اور 40 فٹ بلند سنہرے تعزیہ جات دنیا بھر میں مقبول، بیرون ملک سے بھی دیکھنے لوگ پہنچ گئے۔
تفصیلات کے مطابق چنیوٹ کے روایتی تعزیے نہ صرف ملک میں بلکہ دنیا بھر میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ چنیوٹ یوں تو فرنیچر سازی کے حوالے سے پوری دنیا میں اپنا نمایاں مقام رکھتا ہے مگر اس کا شمار پاکستان کے اْن شہروں میں بھی ہوتا ہے جہاں محرم الحرام کے دوران کثیر تعداد میں ماتمی جلوس نِکالے جاتے ہیں۔
اِن میں بڑی تعداد لکڑی کے بنے تعزیہ جات کے جلوسوں کی ہوتی ہے 40 فْٹ بلند، آٹھ فْٹ چوڑے اور 60 من وزنی ان تعزیہ جات کی چھ منازل ہوتی ہیں۔ ہر منزل کئی چھوٹے بڑے دیار کی لکڑی کے ایسے ٹکڑوں سے بنتی ہے جو مِنی ایچر محرابوں، جھروکوں، گنبدوں اور میناروں پر مشتمل ہوتی ہے۔
ان تعزیہ جات کو یکجا کرنے میں کوئی کیل استعمال نہیں ہوتی بلکہ مختلف حصوں کو ایک دوسرے میں پیوست کرکے فن کا یہ شاہکار مکمل کیا جاتا ہے۔ تعزیے کے تخت پر گلاب، سوسن اورانگوروں کی بیل کی منبت کاری کرکے چنیوٹ کے ماہر کاریگر شہدائے کربلا کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
تعزیہ بنانے والے ماہر کاریگر کہتے ہیں کہ شہدائے کربلا سے محبت اور عقیدت میں دیار کی لکڑی پر منبت کاری کرکے بارہ منازل پر مشتمل تعزیہ جات بنائے ہیں۔ ان تعزیہ سازی کا رواج ان کی نسلوں تک جاری رہے گا۔
عقیدت مندوں کا کہنا ہے کہ ہر سال نویں اور دسویں محرم الحرام کو چنیوٹ کے مختلف علاقوں سے یہ تعزیہ جات اپنے روایتی قدیمی راستوں سے نکالے جاتے ہیں۔ شہدائے کربلا سے عقیدت کا اظہار کرنے کے ان تعزیوں کو 16 سے زائد افراد اٹھا کر میدان ترکھاناں میں لاتے ہیں جہاں لکڑی کے بنے یہ 8 تعزیہ جات یکجا ہوتے ہیں اور عزادار سینہ کوبی اور زنجیر زنی کرتے ہیں۔ تعزیہ روٹس کے اطراف میں عقیدت مندوں کی جانب سے لنگر و نیاز اور سبیلوں کا خصوصی اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
چنیوٹ کے ماہر کاریگروں کے ہاتھوں سے تراشیدہ یہ تعزیہ جات امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا سے محبت و عقیدت کا منفرد انداز ہیں جس کی مثال پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔