ایک نیوز: خیبر پختونخوا کے ضلع اپر چترال میں دریا میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرنے والے 13 برس کے بچے تنویر ضیاء الحق کی لاش تلاش کر لی گئی۔
رپورٹ کے مطابق تنویر ضیاء الحق کی لاش کئی گھنٹوں کی تلاش کے بعد دوسرے گاؤں سے ملی ہے۔ بعض لوگوں کی جانب سے اسے حادثہ قرار دیا جارہا ہے جبکہ بعض لوگوں کی جانب سے اسے خودکشی قرار دیا کیونکہ اس علاقے میں خودکشی کے واقعات اکثر رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ خودکشی کرنے والے بچے تنویر ضیاء الحق کے والد کا خط منظر عام پر آیا جس سے کیس کا رخ دم مڑ گیا اور کئی سوالات کو اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
بچے کے والد ضیاء الحق نے اپر چترال کے ضلعی پولیس افسر کو لکھے گئے خط میں انکشاف کیا کہ ’خودکشی کے اقدام سے ایک دن قبل مقامی دکانداروں نے اس کے بیٹے کو مبینہ چوری کے الزام میں پکڑ کرپولیس کے حوالے کیا۔‘
بچے کے والد کا کہنا تھا کہ پولیس نے 13 سالہ بچے کو چوکی میں رکھا اور گھنٹوں تک مختلف طریقوں سے پوچھ گچھ بھی کی۔ اس کے ساتھ ہی بچے پر ایک سے زیادہ چوری کی وارداتوں کا الزام بھی لگایا گیا۔اس تمام تر صورتحال کا بچے کی نفسیات پر منفی اثر پڑا اور وہ خوف کی وجہ سے سہم گیا۔
والد کی درخواست میں بتایا گیا کہ ’ بچہ گھر جا کر کم سن تنویر ذہنی دباؤ کا شکار رہا اور اگلے دن خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوا۔‘والد نےضلعی پولیس افسر کو بھیجی گئی درخواست میں دکانداروں اور پولیس چوکی انچارج کے خلاف کارروائی کی اپیل کی گئی ہے۔
واضع رہے کہ دوکانداروں کی جانب سے کم عمر تنویر پر گھڑی اور پرفیوم چوری کا الزام لگایا گیا تھا جب پولیس کے حوالے کیا گیا تو کچھ اور دکانداروں نے بھی ہونے والے پرانے واقعات کا ذمہ دار بچے کو ٹھہرایا۔والد نے مزید بتایا کہ ’وہاں موجود لوگوں نے بچے کی طرف داری کی اور سوال بھی اٹھایا کہ ان سب الزامات کے کیا ثبوت ہیں؟ سوائے ایک دکاندار کے کسی کے پاس ثبوت موجود نہ تھے۔‘
https://www.pnntv.pk/digital_images/large/2023-01-25/news-1674644691-8951.jpg
سماجی رہنما اقرار الدین خسرو کے مطابق بچے کے لواحقین اس وقت شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں اور وہ انصاف کے متلاشی ہیں