ایک نیوز :ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ ہمارے لیے تمام سیاستدان اور سیاسی جماعتیں قابل احترام ہیں اور افواج پاکستان کسی خاص سیاسی سوچ اور جماعت کی نمائندگی نہیں کرتی۔
تفصیلات کےمطابق پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کےڈی جی میجر جنرل احمد شریف چودھری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئےکہا کہ آج کی پریس کانفرنس میں آپ سب کو خوش آمدید، آپ کو عید کےفوراً بعد اس پریس کانفرنس میں آنا پڑا جس کے لیے میں شکر گزار ہوں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاک فوج اور حکومت کے درمیان آئینی تعلق ہے، کسی بھی ملک میں فوج کی جانب سے کسی ایک سیاسی یا مذہبی گروہ کے خلاف کارروائی کا نتیجہ انتشار ہی نکلتا ہے۔
کشمیر سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ کشمیر کی عالمی تسلیم شدہ حقیقت ہے جس کو کوئی نہیں بدل سکتا، کشمیر نہ کبھی بھارت کا اٹوٹ انگ رہا ہے اور نہ کبھی رہے گا۔ آپریشنل تیاریوں پر کسی کو شک ہے تو فروری 2019 سامنے ہے اور فروری 2019 میں پلوامہ حملہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔ پاکستان اور بھارت کے دفاعی بجٹ میں فرق کسی سے چھپا نہیں۔
سوال و جواب سے قبل میڈیا کو بریفنگ میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ افواجِ پاکستان پُر عزَم ہیں کہ عوام کے تعاون سے ہم ہر چیلنج پر قابو پا لیں گے اور وطن عزیز کو مستحکم اور دَائمی امن کا گہوارہ بنائیں گے۔ پریس کانفرنس کا مقصد افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں اور حالیہ دہشتگردی کے خلاف کیے جانے والے اِقدامات کا احاطہ کرنا تھا۔ پریس کانفرنس میں رواں سال کے دوران سیکیورٹی اور دہشتگردی کے اہم معاملات پر روشنی ڈالی گئی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پشاور پولیس لائنز مسجد پر خودکش حملہ کالعدم ٹی ٹی پی کے احکامات پر جماعت الاحرار نے کیا، پشاور مسجد پر حملہ کرنے والے کا تعلق قندوز افغانستان سے تھا۔ پشاور حملے کے لیے دہشت گرد عبدالبصیر نے حملہ آور کو افغانستان میں تربیت دی، نمازیوں کی تعداد کم ہونے کی بنا پر پشاور حملے کو 2 بار ملتوی کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی لیڈرشپ کی گیڈر بھپکیاں اور لائن آف کنٹرول پر پاکستان کی جانب سے انفلٹریشن ٹیکنیکل ایئر وائلشین اور دیگر الزامات کا لگاتار جھوٹا پروپیگنڈا بھارت کی درحقیقت ایک خاص پولیٹیکل ایجنڈے کی عکاسی کرتا ہے۔پاکستان نے ہمیشہ اقوام متحدہ کے قائم کردہ ’یونائیٹڈ نیشنز ملٹری آبزور گروپ اِن انڈیا اینڈ پاکستان‘ کے ساتھ بھرپور تعاون کیا ہے، اس ضمن میں پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کے مبصرین کو لائن آف کنٹرول پر مکمل رسائی دی گئی ہے جبکہ بھارت کی طرف سے اقوام متحدہ کے مبصرین کو نہ ہی کوئی رسائی دی گئی ہے اور نہ ہی لبرٹی آف ایکشن کی اجازت دی گئی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے گزشتہ کچھ ہی عرصے کے دوران لائن آف کنٹرول پر 16 دورے کروائے، جس میں بین الاقوامی میڈیا اور او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کا دورہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے جبکہ بھارت کی جانب سے ایسا کوئی بھی وزٹ نہیں کروایا گیا جو کہ اس کی مقبوضہ کشمیر میں حقیقی صورتحال کو چھپانے کی خواہش کی غمازی کرتا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ رواں سال اب تک 56 مرتبہ بھارت کی جانب سے چھوٹی سطح پر مختلف سیز فائر کی خلاف ورزیاں کی گئیں، جس میں اسپیکولیٹو فائر کے باعث فضائی حدود کے تین، سیز فائر کی خلاف ورزیوں کے 6 چھوٹے اور ٹیکنیکل فضائی حدود کی خلاف ورزی کے 25 واقعات شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ افواج پاکستان بھارت کی ان تمام شرانگیزوں سے نبردآزما ہونے کے لیے ہمہ وقت تیار اور کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کے لیے پرُعزم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی داخلی اور بارڈر سیکیورٹی کو یقینی اور دائمی بنانے کے لیے ہم مکمل طور پر فوکسڈ ہیں، اس حوالے سے پاکستان کی سول اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیز، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سیکیورٹی فورسز نے شاندار اقدامات کیے اور دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو کیفرکردار تک پہنچانے میں شب و روز اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ پاکستان آرمی نے موجودہ معاشی حالات کے پیشِ نظر اپنے آپریشنل اور خصوصاً غیر آپریشنل اخراجات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ معیشت کی بہتری کے لیے ہر قسم کے اخراجات میں کمی لائی جائے گی۔ اس سلسلے میں پیٹرولیم، راشن، تعمیرات، غیر آپریشنل پروکیورمنٹ، ٹریننگ اور غیر آپریشنل نقل و حرکت میں کمی کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے Simulator Training اور آن لائن میٹنگ کے انعقاد کو بڑھایا جا رہا ہے تاکہ اس مَد میں بھی اخراجات کو کم کیا جا سکے۔
میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ دو دہائیوں کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اس دہشت گردی کی جنگ کا بحیثیت قوم یکجا ہو کر بہادری سے مقابلہ کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ ہمارا یہ سفر قربانیوں اور لازوال حوصلوں کی ایک شاندار مثال ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے دہشت گردی کے عفریت کا کامیاب حکمت عملی اور قومی اتحاد سے بھرپور سامنا کیا ہے اور انشا اللہ اسکے دائمی خاتمے تک یہ جدو جہد جاری رہے گی۔
انہوں نے بتایا کہ دہشت گردی کے ان واقعات میں کالعدم ٹی ٹی پی کا اور بلوچستان کی دہشت گرد تنظیموں کا بیرونی تعلق بھی ثابت ہوا ہے، افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں دہشت گردی کے واقعات میں نسبتاً اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ہم رواں سال کی طرف مرکوز ہوتے ہیں، رواں سال میں مجموعی طور پر چھوٹے بڑے دہشت گردی کے 436 واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں 293 افراد شہید جبکہ 521 زخمی ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں 219 واقعات میں 192 افراد شہید جبکہ 330 زخمی ہوئے، بلوچستان میں 206 واقعات میں 80 افراد شہید جبکہ 170 زخمی ہوئے، پنجاب میں دہشت گردی کے 5 واقعات ہوئے جن میں 14 افراد شہید جبکہ 3 زخمی ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح سندھ میں ہونے والی دہشت گردی کے 6 واقعات میں 7 افراد شہید جبکہ 18 زخمی ہوئے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ رواں سال سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف 8 ہزار 269 چھوٹے بڑے خفیہ اطلاع پر آپریشنز کیے ہیں، اسی دوران لگ بھگ 1535 دہشت گردوں کو واصل جہنم یا گرفتار کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں 3591 آپریشنز کیے گئے اور 581 دہشت گردوں کو گرفتار اور 129 کو واصل جہنم کیا گیا، بلوچستان میں 4 ہزار 40 آپریشنز کے دوران 129 دہشت گردوں کو گرفتار اور 25 کو جہنم رسید کیا گیا، پنجاب میں 119 آپریشنز کیے گئے اور سندھ میں 519 آپریشنز کے دوران 398 دہشت گردوں کو گرفتار جبکہ 3 کو جہنم رسید کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر 70 سے زائد آپریشنز افواج پاکستان، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے انجام دے رہے ہیں، یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ آج الحمد اللہ عوام اور افواج پاکستان کی لازوال قربانیوں کی بدولت پاکستان میں کوئی ’نو گو ایریا‘ نہیں ہے، البتہ مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کی کچھ تشکیل سرگرم عمل ہیں، جن کی روزانہ کی بنیاد پر سرکوبی کی جا رہی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ان آپریشنز کے دوران دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں سے بڑے پیمانے پر اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کیا گیا ہے اور کیا جارہا ہے، جو دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں، ان میں ملوث دہشت گردوں، منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پشاور حملے میں ملوث خودکش بمبار کا تعلق افغانستان سے تھا جس کو حملے سے تین ہفتے پہلے حملے کے سہولت کاروں کے حوالے کیا گیا تھا جبکہ سہولت کاروں کو اس حملے کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد کے لیے 75 لاکھ روپے دیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ سہولت کاروں کی طرف سے پہلے دو حملے مسجد میں نمازیوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے مؤخر کردیے گئے جبکہ تیسرے حملے میں نمازیوں کی بڑی تعداد دیکھتے ہوئے خود کش دھماکا کروایا گیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اسی طرح کراچی پولیس آفسر پر 17 فروری 2023 کو جن تین دہشت گردوں نے حملہ کیا وہ تینوں دہشت گرد سیکیورٹی فورسز کے جوابی حملے میں ہلاک ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ ان دہشت گردوں میں کفایت اللہ کا تعلق لکی مروت اور زالہ نور کا تعلق جنوبی وزیرستان سے تھا اور اس کے علاوہ حملے کے تین ماسٹر مائینڈ کو بھی بعدازاں حراست میں لیا گیا تھا جن میں عریاد اللہ، وحید اور عبدالعزیز صدیقی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گرفتار دہشت گردوں سے خود کش جیکٹس اور بھاری مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا تھا جو کہ حب کے راستے کراچی پولیس آفس پہنچے تھے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ عریاد للہ خان نے 8 ماہ تک کراچی پولیس آفس کی جاسوسی کی اور ڈی آئی خان سے دہشت گردوں کو لانے کی منصوبہ بندی کی جو کہ تینوں دہشت گرد حملے میں ہلاک ہوگئے۔