یہ1988ء جون کی بات ہے۔ ہم انگلینڈ گئے ہوئے تھے اور ایک روز لندن سے بولٹن جانے کے لئے مانچسٹر جانے والی بس میں سوار تھے، بولٹن میں ہمارے ہم زلف محمد جمیل کی رہائش ہے اور ہم اپنی اہلیہ کی بہن اور ان کے بچوں سے ملنے جا رہے تھے، موٹروے کا سفر تھا، ہم بائیں طرف کی کھڑکی کے پاس تھے، قریباً آدھا راستہ گذر چکا ہو گا، جب ہماری نظر دوسری طرف ایک فون بوتھ کے قریب کھڑی خالی کار پر پڑی، اس کے پاس ہی پولیس کار کی موجودگی نے حیرت کا ہلکا تاثر پیدا کیا۔ بہرحال بس گذر گئی، ہم اپنی منزل پر پہنچے، ملاقات ہوئی، خیر خیریت کے بعد چاء کا دور چل رہا تھا، گھر میں ٹیلی ویژن پر بی بی سی(سٹی) لگا ہوا اور اس پر خبریں تھیں، ہم نے دیکھا کہ وہ خبر موٹروے کے حوالے سے اسی کار کے بارے میں تھی، جو راستے میں کھڑی نظر آئی، ہماری توجہ خبر کی طرف ہو گئی۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے پولیس نے موٹروے کے اسی کنارے اوپر جا کر ایک دوشیزہ کی نعش دریافت کی، اسے بے حرمتی کے بعد گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا تھا اور پھررات کے کھانے تک یہ صورتِ حال تھی کہ پولیس نے کار کی مالکن کا اتہ پتہ ہی معلوم نہ کیا، بلکہ پولیس کی درخواست پر متعدد حضرات نے فون پر معلومات فراہم کیں۔زیادہ تفصیل میں جائے بغیر عرض کر دیں کہ اگلے دن تک پولیس نے شہریوں کی دی گئی اطلاعات کے مطابق ملزم کو گرفتار کر لیا تھا،وقوعہ کے مطابق خاتون کی کار میں کوئی نقص ہوا، وہ فون بوتھ سے مدد طلب کرنے رُک گئی،ابھی ریسیور اٹھایا کہ ایک نوجوان نے گن پوائنٹ پر اسے آگے لگایا اور موٹروے سے پرے ویران جگہ پر لے جا کر جرم کیا اور فرار ہو گیا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انگلینڈ کے عوام کو اپنی پولیس پر اتنا اعتماد تھا (اب بھی ہے) کہ ہر اس شخص نے فون پر معلومات مہیا کیں جو وہاں سے گذرا اور اس نے کار،لڑکی اور پھر لڑکے کو دیکھا، اور یوں ایک ہی روز میں ملزم گرفتار ہو کر عدالت میں پیش ہوا اور فیصلہ بھی جلد ہو گیا،اس وقوعہ کو بتانے سے مراد یہ ہے کہ اگر ہمارے ملک میں بھی اعتماد کا یہ رشتہ بن جائے تو یہ سب ممکن ہے، ورنہ لاکھوں روپے کے انعام سے بھی کوئی سراغ نہیں ملتا، ہمارے خیال میں پولیس اپنے ابتدائی امتحان کے دوسرے پرچے میں فیل ہو گئی۔
اب ہم محترم وفاقی وزیر کی ”خواہش“ کا ذکر کرتے ہیں کہ 2013ء میں سزا ہو جاتی، ہماری تو پریشانی یہ ہے کہ اس وقوعہ کے بعد مسلسل بے حرمتی کی وارداتیں ہوتی چلی جا رہی ہیں،ہر روز ایک سے زیادہ جرم ہو رہے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک جنسی وحشیوں سے بھرا پڑا ہے، جو معصوم بچوں اور بچیوں کی بھی کوئی پرواہ نہیں کرتے، اور یہ بات ایک کہاوت رہ گئی کہ ”تمہارے گھر میں ماں، بہن نہیں ہے“ لیکن ہم ہیں کہ ان وارداتوں کے سماجی پہلوؤں کا ذکر اور ان پر غور کرنے کی بجائے فروعات میں مبتلا ہیں۔اگر عابد گرفتار ہو کر سزا پاتا اور پھانسی بھی چڑھ جاتا ہے تو کیا جو ظلم اس کے بعد ہوئے ان کو بھی انصاف مل جائے گا،ضرورت تو یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس جنگلی،اور حیوانیت والے عمل کے سماجی اور معاشی پہلوؤں پر غور کریں اور یہ سب احتجاج کرنے والوں کے لئے بھی لازم ہے، ہم سب کو سوچنا ہو گا کہ ہمارا سماج کیوں اس حد تک بگڑ گیا کہ اب بچوں کو اکیلا بھی نہیں چھوڑا جا سکتا اور خواتین اکیلے سفر نہیں کر سکتیں، مہذب قومیں تو ایسے واقعات سے ایسے ہی نتائج اُخذ کرتی ہیں کہ مستقبل میں یہ سب کچھ نہ ہو، کیا ہم پولیس اور عوام کے درمیان بداعتمادی،پولیس کی طرف سے تفتیش میں کوتاہی، پراسیکیوشن کی عدم یا غلط پیروی اور عدالتی ماحول اور نظام کے بارے میں غور نہیں کر سکتے یا پھر کسی بڑے وقوعہ پر واویلا کرتے ہوئے، باقی تمام وارداتیں فراموش کر کے بیٹھ جائیں گے اور سماج سدھار کا کوئی عمل نہیں کریں گے۔