ایک نیوز: ملک کے جنوب میں واقع صوبے سندھ میں حکام نے سب سے بڑے رئیل سٹیٹ ڈویلپرز میں سے ایک، بحریہ ٹاؤن کراچی کو پراپرٹی کی تشہیر یا فروخت سے روک کر واجبات کی ادائیگی میں ناکامی پر اس کے مالکان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، جو سندھ میں زمین سے متعلق معاملات کی نگرانی کرتا ہے، نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کراچی ریگولیٹر کو سکروٹنی فیس ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ تاہم اتھارٹی نے ڈویلپر کے ذمہ اس حوالے سے واجب الادا رقم کی وضاحت نہیں کی۔
حکام کا کہنا ہے کہ رئیل اسٹیٹ ڈویلپر کو چیک کے ذریعے فیس کی ادائیگی نہ ہونے پر شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تھا، لیکن فرم اس کا جواب دینے میں ناکام رہی ہے۔
ایس بی سی اے نے اس حوالے سے جاری اپنے خط میں کہا کہ ریئل اسٹیٹ ڈیویلپر فیس کی ادائیگی کے چیکوں کو بینکوں کی طرف سے قبول نہ کئے جانے کی باعث واجبات کی ادائیگی میں ناکام رہا ہے۔ جس کی تفصیل ڈیویلپر کو بتائی گئی تھی لیکن کمپنی مقررہ وقت تک نوٹس کا جواب دینے میں بھی ناکام رہی۔
لہٰذا بحریہ ٹاؤن (پرائیویٹ) لمیٹڈ کو جاری کئے گئے این او سی کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ جس کے باعث کمپنی پر بحریہ ٹائون کراچی کے حوالے سے اشتہارات اور فروخت کے عمل پر فوری طور ہر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ، بحریہ ٹاؤن کراچی کے مالکان، ملک ریاض اور علی ریاض ملک کے خلاف ان کے تین چیکوں کو بنکوں کی جانب سے ٹھکرائے جانے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ان چیکوں میں سے ہر ایک کی رقم 64،168،762 روپے بتائی جاتی ہے۔
این او سی کی منسوخی اور مقدمہ کا اندراج پہلا موقع نہیں ہے کہ بحریہ ٹاؤن کو پاکستان کے تجارتی مرکز کراچی میں اپنے میگا رئیل اسٹیٹ پروجیکٹ کے حوالے سے ریگولیٹری کارروائی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
مئی 2018 میں زمینوں کے حصول میں بے ضابطگی پر، سپریم کورٹ کے تین ججوں کے ایک بینچ نے سندھ حکومت کو بحریہ ٹاؤن کراچی کے لیے رئیل سٹیٹ ڈویلپر کو پلاٹ اور رہائشی یونٹس فروخت کرنے یا الاٹ کرنے سے روک دیا تھا۔
بعد ازاں عدالت نے کراچی کے ضلع ملیر میں حاصل کی گئی اراضی کے لیے بحریہ ٹاؤن کی 460 ارب روپے کی پیشکش قبول کر لی اور ملک کے بدعنوانی کے واچ ڈاگ کو ڈویلپر کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے روک دیا۔