ایک نیوز:مسلسل گیارہ دن تک جاگنےکاریکارڈبناناشہری کومسائل کاسامناکرناپڑگیا۔
تفصیلات کےمطابق نیندقدرت کی بنائی ہوئی نعمتوں میں سےایک بہت بڑی نعمت ہے،اگرایک رات کی نیندخراب ہوجائےتویہ ہمارےمزاج کوکتنامتاثرکرتی ہے۔
1963میں امریکاسےتعلق رکھنےوالے رینڈی گارڈنر نامی شہری نے17سال کی عمرمیں جاگنےکاورلڈریکارڈبنانےکاسوچاجوکہ کوئی آسان کام نہ تھا۔اس کام کاخیال رینڈی گارڈنراوران کےدوست بروس میک ایلسٹرکوسکول دورکےدوران آیاتھا۔
درحقیقت یہ دونوں بیدار رہنے کا عالمی ریکارڈ توڑنا چاہتے تھے اور ٹاس کے ذریعے فیصلہ کیا گیا کہ یہ کام کون کرے گا۔
بروس میک ایلسٹر نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ”ہم دونوں احمق تھے اور میں بھی رینڈی پر نظر رکھنے کے لیے کئی راتوں تک جاگتا رہا“۔
انہوں نے بتایا کہ”3 راتوں تک جاگنے کے بعد میری ایسی حالت ہوگئی تھی کہ دیوار پر نوٹس لکھنے لگا تھا۔
اس تجربے کی نگرانی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ایک محقق ڈاکٹر ولیم ڈیمینٹ اور امریکی بحریہ کے طبی عملے میں شامل جان جے روس نے کی۔
بے خوابی کا اثر دوسرے دن ہی اس وقت نظر آنے لگا جب رینڈی گارڈنر کو بولنے میں مشکلات کا سامنا ہوا۔
نیند سے دوری کو 3 دن ہونے پر رینڈی گارڈنر چڑچڑے ہوگئے، توجہ مرکوز کرنا مشکل ہوگیا جبکہ مختصر المدت یادداشت متاثر ہوئی۔
ڈاکٹر ولیم ڈیمینٹ کے مطابق رینڈی گارڈنر جسمانی طور پر فٹ تھا، مگر اس کا حال یہ تھا کہ اگر وہ آنکھیں بند کرتا تو فوراً ہی سو جاتا۔
مجموعی طور پر رینڈی گارڈنر264.4 گھنٹے یعنی 11 دن سے زائد وقت تک بیدار رہے اور اس کے بعد14 گھنٹے تک سوتے رہے۔
مگر یہ تجربہ ان کے لیے بھاری ثابت ہوا اور بعد میں بھی سونے میں مشکلات کا سامنا ہوتا رہا۔
ایک انٹرویو میں رینڈی گارڈنر نے بتایا کہ اس تجربے کے دہائیوں بعد بھی انہیں بے خوابی کا سامنا ہوتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ”اب بھی میرے لیے سونا مشکل ہوتا ہے اور مجھے احساس ہوتا ہے کہ دہائیوں پہلے میں نے بہت بڑی غلطی کی“۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سائنس پراجیکٹ نے تاریخ ضرور رقم کی مگر نیند سے دوری کبھی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔