ایک نیوز نیوز: صحافی ارشد شریف کے قتل کے وقت جائے وقوعہ کی تصویر سامنے آئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک نیم پختہ سڑک جہاں پر یہ واردات ہوئی ، وہاں دور دور تک کوئی آبادی نہیں ہے۔ لیکن کینیا کی پولیس کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ انہوں نے روڈ بلاک کرنے کیلئے سڑک پر چھوٹے پتھر رکھے تھے۔ اس سڑک پر چھوٹے تو کیا تھوڑے بڑے پتھر بھی رکھے جاتے تو نظر نہیں آتے۔
تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کینیا کی پولیس کی اسٹوری میں کافی جھول ہیں۔
زیر نظر تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ارشد شریف کے زیراستعمال گاڑی کو دونوں اطراف سے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد گاڑی کا ٹائر بھی بری طرح پھٹ گیا اور وہ چلنے کے قابل نہ رہی۔ تاہم اہلکاروں کا مقصد کچھ اور تھا۔ اس کے علاوہ ارشد شریف کو سر پر لگنے والی گولی پیچھے سے آئی جس نے گاڑی کی بیک اسکرین سےگزر کر ہیڈ ریسٹ سے چھید کرتے ہوئے ان کے سر سے گزر گئی اور سامنے ونڈ اسکرین سے ٹکرا کر گر گئی۔ اور یہی گولی جان لیوا ثابت ہوئی۔
ارشد شریف کے انتقال کی خبر پاکستانی حکام کو کس نے فراہم کی؟
کینیا میں پاکستانی ڈپٹی ہیڈ آف مشن جنید وزیر نے بتایا کہ کینیا کے پاکستانی نژاد رکن پارلیمنٹ نے ارشد شریف کے قتل کی اطلاع دی۔
جنید وزیر کا کہنا ہے کہ ہائی کمشنر پاکستان نے ابتدائی اطلاع وزارت خارجہ بھیج دی ہے لیکن کینیا کی وزارت خارجہ کی آفیشل اطلاع سے پہلےکچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔
ڈپٹی ہیڈ آف مشن پاکستان کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ سے کینیا پولیس کا وفد کچھ دیر میں نیروبی پہنچ رہا ہے، کینیا کے پولیس حکام پاکستانی ہائی کمشنر کو معاملے پر بریفنگ دیں گے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ ارشد شریف کے واقعے پر پاکستانی سفارتخانے نے کینیا کے صدارتی محل سے بھی رابطہ کیا ہے جس میں واقعے کی مکمل تفصیلات اور تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ کینیا کی پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ارشد شریف روڈ چیکنگ کے دوران غلط فہمی کی بنیاد پر فائرنگ کا نشانہ بن گئے۔