ایک نیوز: سینیٹ اجلاس کے وقفہ سوالات کے دوران گورنر اسٹیٹ بینک کی تنخواہ تقریبا 40 لاکھ روپے ماہانہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ جس پر سینیٹرز نے شدید احتجاج کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزارت خزانہ کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب کے مطابق گورنر اسٹیٹ بینک کی ماہانہ تنخواہ 39 لاکھ 35 ہزار روپے ہے۔ جس پر سینیٹرز نے سوال اٹھایا ہے کہ ہماری تنخواہ ایک لاکھ60 ہزار اور گریڈ8 کے ملازم کی تنخواہ 40 لاکھ کیوں ہے؟
سینیٹ اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران چیئرمین سینیٹ نے پوچھا کہ وزیر خزانہ کہاں ہیں؟ ایوان میں سے ایک ممبر نے جملہ کسا کے وزیر خزانہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہیں۔ جس پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ اوہ چلیں پھر چپ رہتا ہوں۔
نگران وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بتایا کہ وزیرخزابہ سینیٹ میں ہیں اور وزارت خزانہ کے افسران سے بریفنگ لے رہی ہیں۔ جس پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ وزیرخزانہ سینیٹ میں ہیں تو ایوان میں آئی کیوں نہیں ؟ انہیں بلائیں۔ اس کے بعد وزیر خزانہ شمشاد اختر ایوان میں آ گئیں۔
ڈاکٹر دنیش کمار نے سوال کیا کہ سنا ہے گورنر اسٹیٹ بینک کی تنخواہ 40 لاکھ ہے۔ انہوں نے طنزا محاورہ کسا کہ اندھا بانٹے ریوڑی مڑ مڑ اپنوں کو۔ وزیرخزانہ نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک ایک کارپوریٹ باڈی ہے، یہ تمام معاملات ان کے بورڈ آف گورنرز کی باڈی کرتی ہے۔
سینیٹر پلوشہ خان کا کہنا تھا کہ ایک سینیٹر کی تنخواہ ایک لاکھ 40 ہزار ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک ایسا کونسا کام کرتے ہیں کہ ان کی تنخواہ 40 لاکھ تک ہے۔ ہم آئی ایم ایف سے بھیک مانگتے ہیں اور دوسری جانب اسٹیٹ بینک کے لوگوں کی اتنی تنخواہ ہے۔
وزیرخزانہ نے بتایا کہ اسٹیٹ بنک نے پالیسی دی تھی کہ پینشن ختم ہونے کی صورت میں تنخواہ بڑھا دی۔ اسٹیٹ بنک کی پینشن کا بوجھ بڑھ رہا تھا تو یہ پالیسی لائی گئی۔ دنیا بھر میں سینٹرل بنک کا سیلری سٹرکچر سب سے مختلف ہوتا ہے۔
سینیٹر بہرہ مند تنگی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے ایک ڈرائیور کی تنخواہ ہمارے ایک سینیٹر سے بھی ڈبل ہے۔ جس پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ یہ معاملہ لاء منسٹری کو بھیجتے ہیں جو ایوان میں رپورٹ جمع کروائے گی۔