پکتیکا صوبے سے غیرملکی خبررساں ایجنسی کی نمائندہ سکندر کرمانی کے مطابق زلزلے میں مذکورہ بالا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہے۔
تباہ شدہ گھر کے ملبے سے اپنے خاندان کی نشانیاں تلاش کرتے آغا جان نے گفتگو کی تو ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔
’’یہ میرے بیٹے کے جوتے ہیں۔‘‘ جوتوں سے گرد جھاڑتے ہوئے آغا جان نے کہا۔زلزلے کے نتیجے میں اس کی دوبیویاں اورتین بچے ہلاک ہوگئے تھے۔
بدھ کی صبح زلزلہ آیا تو آغا جان فوری طورپر اپنی فیملی کے کمرے میں پہنچا۔
’’لیکن وہاں ہرچیز ملبے تلے دبی ہوئی تھی،حتیٰ کہ اس کی کدال بھی۔میں کچھ نہیں کرسکتا تھا۔میں نے اپنے کزنوں کو مدد کے لیے بلایالیکن جب ہم نے اپنی فیملی کو ملبے سے باہر نکالا تو وہ سب مرچکے تھے۔‘‘
رپورٹ کے مطابق پکتیکا صوبے میں برمل کا ضلع ذلزلے سے سب سے زیادہ متاثر تھاجہاں ایک ہزار کے لگ بھگ افراد ہلاک جبکہ تین ہزارزخمی ہوئے تھے۔
نزدیک ترین شہر بھی وہاں سے تین گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا جبکہ سڑکیں بھی خراب تھیں۔زخمیوں کووہاں سے ہسپتال لے جانا بہت مشکل تھا۔کچھ زخمیوں کو تو طالبان نے اپنے ہیلی کاپٹروں پر شہر کے ہسپتالوں میں منتقل کردیا تھا۔
زلزلے سے مٹی اور پتھروں سے بنا ہر گھر متاثر ہوا تھا۔ ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد یا ایک سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
حبیب گل کراچی میں مزدوری کرتا ہے۔ اسے جب زلزلے کو خبر ملی تووہ فوری طورپر افغانستان اور وہاں سے اپنے گائوں برمل پہنچا تو اسے پتہ چلا کہ زلزلے میں اس کے خاندان کے بیس افراد ہلاک ہوچکے تھے۔ان میں سے اٹھارہ افراد ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔
حبیب گل کے مطابق زلزلے میں اس کی تین بہنیں ، بھانجی ، بیٹی اور بچے ہلاک ہوئے تھے۔