ایک نیوز:چنگیز خان نے منگولوں کو اپنے ساتھ ملا کر دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت قائم کی تھی۔
تفصیلات کےمطابق مگر 1227 میں موت کے بعد بھی 8 صدیوں سے چنگیز خان ماہرین آثار قدیمہ کیلئے ایک معمہ ہے کیونکہ آج تک اس کا مدفن دریافت نہیں ہوسکا۔
جی ہاں واقعی لگ بھگ 800 سال سے چنگیز خان کا مدفن ایک راز بنا ہوا ہے، حالانکہ اسے تلاش کرنے کیلئے مہم جوؤں، ماہرین آثار قدیمہ اور چوروں نے لاتعداد کوششیں کی ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں بھی اس میں کامیابی ممکن نہیں، خاص طور پر منگولیا میں کچھ حلقے تو یہی چاہتے ہیں۔
زیادہ تر کوششیں شمالی منگولیا کے ایک علاقے یا پہاڑ بورخان خالدون میں ہوئی جسے چنگیز خان کا جائے پیدائش بھی تصور کیا جاتا ہے۔
ایسا کہا جاتا ہے کہ منگول سلطنت کے بانی نے اپنے آخری دن اسی مقام پر گزارے مگر اب تک وہاں مدفن کی تلاش کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔
ایسا کہا جاتا ہے کہ موت کے وقت چنگیز خان نے ہدایت کی تھی کہ مدفن کا مقام راز رکھا جائے اور جن سپاہیوں نے لاش کو وہاں تک پہنچایا، انہیں قتل کر دیا گیا تاکہ وہ راستہ کسی کو معلوم نہ ہو سکے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چنگیز خان کو دفن کرنے کے بعد قبر پر ایک ہزار گھوڑوں کو دوڑا دیا گیا تاکہ کسی قسم کے آثار باقی نہ رہیں۔
اب اس بات کو 800 سال ہو چکے ہیں اور اب تک چنگیز خان کے مدفن کو کوئی تلاش نہیں کر سکا۔
چنگیز خان کی پراسرار موت
صرف مدفن کا مقام ہی نہیں بلکہ منگول سلطنت کے بانی کی موت بھی پراسرار ہے۔اب تک تو یہی طے نہیں ہو سکا کہ چنگیز خان کی موت کی وجہ کیا تھی۔
کچھ تحقیقی رپورٹس میں جسم سے خون کے ضیاع کو موت کا باعث قرار دیا گیا ہے جبکہ 2022 کی ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا کہ طاعون چنگیز خان کی ہلاکت کی وجہ بنا۔
مگر اس سے بھی ہٹ کر متعدد وجوہات اس عہد کے لوگوں کی جانب سے بیان کی گئیں، جیسے ایک کہانی میں دعویٰ کیا گیا کہ چین کے ایک قبیلے سے تعلق رکھنے والے شہزادے نے چنگیز خان پر خنجر سے وار کیا اور جریان خون سے منگول سلطنت کا بانی چل بسا۔
کچھ افراد کے مطابق گھوڑے سے گرنے کے باعث آنے والے زخم چنگیز خان کیلئے جان لیوا ثابت ہوئے۔
چنگیز خان کے مقبرے کی تلاش
2014 کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسا کوئی بھی تاریخی یا آثار قدیمہ سے متعلق ریکارڈ موجود نہیں جس میں اس مدفن کے بارے میں کچھ بتایا گیا ہو۔
ان محققین نے اس کی تلاش کیلئے سیٹلائیٹس کی مدد بھی حاصل کی مگر انہیں کوئی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔
ایک قدیم منگولین دستاویز دی سیکرٹ ہسٹری آف دن منگولز (یہ دستاویز 1240 کی ہے) میں بھی مدفن کا ذکر نہیں، بس یہ بتایا گیا ہے کہ 1227 میں چنگیز خان کا انتقال ہوا۔
البتہ اس میں بورخان خالدون کیلئے چنگیز خان کی عقیدت کا کافی تذکرہ کیا گیا اور اسی وجہ سے وہاں متعدد کوششیں کی گئی تھیں۔
ایک تاریخ دان فرینک میک لین نے 2015 میں اپنی کتاب میں دعویٰ کیا تھا کہ موت کے وقت چنگیز خان کی فوج شمال مغربی چین میں ایک قبیلے Tanguts سے مقابلہ کر رہی تھی۔تو وہاں چنگیز خان کے انتقال کے بعد لاش کو منگولیا واپس لے جانا بہت مشکل تھا کیونکہ وہ311 میل دور تھا۔
منگول اس وقت لاش کو محفوظ کرنے کے طریقے نہیں جانتے تھے اور انہوں نے چین کے Ordos خطے میں کہیں چنگیز خان کو دفنا دیا۔اس میں کتنی صداقت ہے، اس بارے میں ابھی کچھ واضح طور پر نہیں کہا جا سکتا۔
ماضی کے معروف سیاح مارکو پولو 1254 سے 1324 تک زندہ رہے تھے اور اس دوران 17 سال چین میں گزارے۔
انہوں نے ایک کتاب دی ٹریولز آف مارکو پولو میں بتایا کہ چنگیز خان کے مدفن کے مقام سے واقف 20 ہزار افراد کو قتل کر دیا گیا تاکہ اس جگہ کو راز میں رکھا جاسکے۔
مگر تاریخ دان مارکو پولو کے بیشتر دعوؤں پر شبہات ظاہر کرتے ہیں تو چنگیز خان کے مدفن کے حوالے سے ان کی بات کو اکثر جھٹلایا جاتا ہے۔
چنگیز خان کے مدفن کی تلاش میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ منگولیا خود ہے، جہاں کے لوگ منگول سلطنت کے بانی کی آخری خواہش کے مطابق اس جگہ کو راز میں رکھنا چاہتے ہیں۔مگر اس کے ساتھ ساتھ منگولیا رقبے کے لحاظ سے بہت بڑا اور غریب ملک ہے جہاں صرف 2 فیصد حصے میں سڑکیں موجود ہیں۔آبادی بہت کم ہے اور ہر جگہ بیابان یا پہاڑ نظر آتے ہیں اور اس طرح کی سرزمین میں متعدد راز چھپانا آسان ہے۔
متعدد حلقوں کا ماننا ہے کہ چنگیز خان کے مدفن میں دنیا بھر سے جمع کیا گیا خزانہ موجود ہے اور یہی دنیا بھر کے لوگوں کی دلچسپی کی وجہ بھی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 2004 میں جاپان اور منگولیا کے ماہرین کی ایک ٹیم نے چنگیز خان کے محل کو دریافت کیا تھا، جس میں موجود تاریخی دستاویزات میں ایسے حوالے موجود ہیں، جن سے عندیہ ملتا ہے کہ حکام روزانہ محل کے میدان سے چنگیز خان کے مدفن تک جا کر رسومات ادا کرتے تھے، مگر اسے اب تک دریافت نہیں کیا جاسکا۔