ویب ڈیسک: اسرائیل نے حماس کے ساتھ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کیلئے شرائط پیش کردیں اور اگلے 48 گھنٹوں کے دوران پیش رفت کا امکان ہے۔
رپورٹ کے مطابق اب ثالثوں کے ذریعے فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کے جواب کا منتظر ہے اور اس کا جواب 48 گھنٹوں کے دوران متوقع ہے۔
حماس سے بات کرنے کے بعد ثالثوں کا جواب آج یا کل تک آنے کا امکان ہے، جس میں طے ہوگا کہ آیا اس پر پیش رفت ہوسکتی ہے یا نہیں جبکہ حماس کا مطالبہ کررہا ہے کہ جنگ روک دی جائے اور غزہ پٹی سے اسرائیلی فوج واپس بلالی جائے۔
اسرائیلی عہدیدار کا نام ظاہر کیے بغیر رپورٹ میں بتایا گیا کہ 24 سے 48 گھنٹوں کے دوران ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم مذاکرات شروع کرنے کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں یا نہیں۔
نیتن یاہو کی حکومت نے 6 شرائط رکھ دی ہیں، جس میں سب سے اہم غزہ میں جنگ بندی کے جواب میں قیدیوں کا تبادلہ ہے، جو اس وقت اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے دوران قید ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اسرائیل کی جانب سے حماس کے ساتھ ہونے والا معاہدہ خفیہ رکھا جائے گا اور عوامی سطح پر نہیں لایا جائے گا اور حماس کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کو انسانی بنیادوں پر ہونے والے اقدام کے طور پر پیش کرے گا۔حماس بتدریج قیدیوں کو رہا کرے گی اور ابتدا میں خواتین، بزرگ اور زخمیوں کو آزاد کیا جائے گا او اس کے بعد ایسے افراد جو فوج کا حصہ نہ رہے ہوں اور آخر میں اسرائیلی فوج اور پھر ہلاک افراد کی لاشیں واپس کردی جائیں گی۔
تفصیلی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنگ بندی کا عمل کئی ہفتوں یا ممکنہ طور پر دو سے تین ماہ جاری رہے گا اور قیدیوں کا مکمل تبادلہ کیا جائے گا، قیدیوں کے نام ان کی رہائی سے قبل دیے جائیں گے اور ہر مرحلے پر اس سے آگاہ کیا جائے گا۔
پانچویں شرط کے تحت غزہ پٹی میں اسرائیل اپنے فوجیوں کی دوبارہ تعیناتی کرے گا اور رہائشی علاقوں سے فوج واپس بلائے گا، فلسطینیوں کو شمالی غزہ میں اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دی جائے گی۔
اسرائیل نے حماس کے سامنے چھٹی شرط یہ رکھی ہے کہ اسرائیل اس دوران کسی بھی موقع پر جنگ کے خاتمے کا وعدہ نہیں کرے گا جبکہ حماس اس سے قبل کئی مرتبہ واضح کرچکی ہے کہ وہ اس وقت تک مذاکرات نہیں کریں گے جب تک غزہ میں مکمل طور پر جنگ بندی نہیں ہوتی۔