ایک نیوز : عراق کے معزول لیڈر صدام حسین کی خواہش کے مطابق ان کی بصرہ میں لنگر انداز لگژری یاٹ کو بحری سائنس کے تحقیقی مرکز میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
اگرچہ یاٹ کا نام صدر صدّام کے نام پر ہے لیکن انہوں نے اس یاٹ پر کبھی قدم نہیں رکھا۔ یاٹ کی تعمیر 1980 میں ڈنمارک میں شروع ہوئی اور ایک سال کے عرصے میں یاٹ مکمل ہو گئی۔اس نجی یاٹ کو 8 سالہ عراق۔ایران جنگ اور اس کے بعد خلیجی جنگ کی وجہ سے عراق نہیں لے جایا جا سکا۔ بعد ازاں صدّام حسین نے یاٹ سعودی شاہ فہد بن عبدالعزیز کو ہدیہ کر دی۔
صدّام حسین تو کسی طور یاٹ کو ملک میں داخل نہ کر سکے لیکن 2010 میں آخر کار یاٹ بصرہ پہنچ گئی۔اس دور کے وزیر رسل و رسائل عامر عبدالجبّار نے جاری کردہ بیان میں کہا تھا کہ صدّام نے اس یاٹ کو خصوصی مقاصد کے تحت تعمیر کروایا تھا ۔ یاٹ کے سرکاری مال ہونے کی وجہ سے اسے ملک واپس لایا گیا ہے۔
اس دلکش یاٹ کو اگرچہ اُس وقت' قدسیہ یاٹ ' نام دیا گیا لیکن اب یہ "بصرہ انسٹیٹیوٹ یاٹ" کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔چار منزلہ یاٹ نہایت قیمتی فرنیچر سے آراستہ 18 کمروں پر مشتمل ہے۔82 میٹر لمبی یاٹ میں حجام، ڈرائی کلیننگ اور ابتدائی طبّی امداد کے کمرے بھی موجود ہیں۔
یاٹ کے ساتھ پہلی دفعہ 2015 میں عراقی اور جرمن سائنس دانوں کے تیار کردہ منصوبے کے دائرہ کار میں بحری تحقیقی سفر کیا گیا۔
حالِ حاضر میں دجلہ اور فرات کے سنگم پر واقع شط العرب پر لنگر انداز صدّام کی نجی یاٹ کو بصرہ یونیورسٹی کے شعبہ بحری سائنسز کے تحقیقاتی مرکز کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔یاٹ کو مقامی و غیر ملکی سیاحوں کی سیر کے لئے بھی کھُلا رکھا گیا ہے۔
گذشتہ ہفتے مکمل ہونے والے 25 ویں خلیج کپ کے لئے بصرہ جانے والے خلیجی شہریوں نے بھی یاٹ کے ساتھ گہری دلچسپی لی اور یاٹ میں اتاری گئی تصاویر اور ویڈیو مناظر کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا ہے۔