پاکستان، چین کو نشانہ بنانے والے بھارتی ٹوئٹر اکاؤنٹس بند

۔ سوشل میڈیا پر بھارت سے باضابطہ معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
کیپشن: ۔ سوشل میڈیا پر بھارت سے باضابطہ معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
سورس: google

ایک نیوز نیوز: پاکستان اور چین کو نشانہ بنانے والے ہزاروں بھارتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس منظر عام پر آگئے ہیں جس کے بعد ٹوئٹر نے پاکستان اور چین پر حملہ کرنے والے ہزاروں بھارتی ٹوئٹر اکاؤنٹس کو بند کر دیا۔

رپورٹ کے مطابق خود کو کشمیری ظاہر کرنے والے ہزاروں ٹوئٹر اکاؤنٹس اصل میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے چلائے جا رہے تھے اور ان اکاؤنٹس کے ذریعے پاکستان اور چین کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ٹوئٹر کی جانب سے 24 اگست کو ان اکاؤنٹس کو پکڑا گیا اور بند کردیا۔

اس سے پہلے آسٹریلیا کی ایک یونیورسٹی نے بھی بھارت سے چلائے جانے والے جعلی اکاؤنٹس کی نشاندہی کی تھی اور اب امریکا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی نے بھی بھارت کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔ 

گذشتہ برس یورپی یونین کی جانب سے بھی بھارت کو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔ سائبرجنگ میں بھارت پہلے بھی خفت اٹھا چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھارت سے باضابطہ معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی ویب سائٹ میں شائع ایک رپورٹ جس کا عنوان ‘میرا دل کشمیر سے وابستہ ہے ٹوئٹر پر بھارتی فوج کے خفیہ حمایتی آپریشن کا تجزیہ’ تھا۔

اسٹینفورڈ انٹرنیٹ آبزرویٹروی کی رپورٹ کے مطابق اس نیٹ ورک کے بیانیے استعمال کردہ ہتھکنڈوں اور رابطے ‘چنار کورپس’ کے ساتھ ملتے ہیں۔  چنار کورپس مقبوضہ کشمیر میں کام کرنے والی بھارتی فوج کی شاخ ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر اور محققین نے بھارتی فوج کے نیٹ ورک کو دستیاب شواہد کی بنیاد پر کسی بھی شخص یا ادارے کے ساتھ منسوب نہیں کیا ہے لیکن رپورٹ میں بھارتی اخبار کے آرٹیکلز کو نمایاں کیا گیا ہے۔  اس میں ٹوئٹر، فیس بُک اور انسٹاگرام نے چنار کورپس کے سرکاری اکاؤنٹ کو مربوط غیر مستند رویے کی بنیاد پر عارضی طور پر معطل کر دیا ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ٹوئٹر نیٹ ورک کا مواد چنار کورپس کے مقاصد سے مطابقت رکھتا ہے۔ بھارتی مقوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے کام کی تعریف کرنے والا بھارتی فوج کا آفیشل اکاؤنٹ ‘چنار کورپس’ ساتواں سب سے ری ٹوئٹ ہونے والا اکاؤنٹ ہے۔

یہ نیٹ ورک پچھلے سال ٹوئٹر پر سب سے زیادہ سرگرم تھا۔ جس کے بعد ٹوئٹر نے اسے 2022 میں قواعد کی خلاف ورزی کی بنیاد پر معطل کر دیا تھا 

طریقہ واردات

یہ نیٹ ورک زیادہ تر انگریزی، اردو اور ہندی زبان میں ٹوئٹ کرنے کو ترجیح دیتا تھا۔

نیٹ ورک میں موجود اکاؤنٹ کے بائیو میں اسے بھارتی فوجیوں اور بافخر کشمیریوں کے رشتہ داروں سے منسلک ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ ایک اکاؤنٹ کے بائیو میں لکھا تھا بھارت اور کشمیر کا فخر، میرا دل کشمیر سے وابستہ ہے، روح بھارت سے اور میری زندگی انسانیت کے لیے ہے’۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس نیٹ ورک میں مخصوص افراد کو نشانہ بنانے کے لیے 2 اکاؤنٹ سرگرم تھے جہاں ان افراد کو بھارتی حکومت کا دشمن تصور کیا جا رہا تھا، ان اکاؤنٹ کے بائیو میں ہیش ٹیک کشمیر، بھارت اور پاکستانی فوج سے متعلق تھے۔

ان اکاؤنٹس میں موجود تصاویر انٹرنیٹ کی دیگر ویب سائٹ سے حاصل کی گئی تھیں۔

ایک مطالعے کے مطابق جن نیٹ ورکس کو معطل کیا گیا ان کے ٹوئٹ میں علاقائی صحافی، بلوچستان اور بھارتی سیاستدان کے معطل شدہ اکاؤنٹس کو ٹیگ کیا گیا تھا۔

 رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ بلوچستان کے کن سیاستدانوں کو نیٹ ورک نے اپنی ٹوئٹ میں ٹیگ کیا تھا۔جن ٹوئٹس میں صحافیوں کو ٹیگ کیا گیا ان کا مقصد رپورٹر یا اس کے فالورز کو اس ٹوئٹ کی جانب متوجہ کرنا تھا۔

رپورٹ میں خاص طور پر نیٹ ورک کے 2 اکاؤنٹس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جو صحافیوں، سیاستدانوں اور کارکنوں کو نشانہ بناتے تھے۔ یہ اکاؤنٹس کشمیر ٹریٹرز اور کشمیر ٹریٹرون کے نام سے ٹوئٹر پر موجود تھے۔

اس کے علاوہ مخصوص افراد کر نشانہ بنانے کے لیے یو ٹیوب چینل بھی بنایا گیا جہاں اس بات پر توجہ مرکوز کی جاتی تھی کہ کون سا صحافی بھارت کے مخالف ہے۔

ان صحافیوں کو ‘وائٹ کالر دہشت گرد’ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ کہا جاتا کہ ایسے لوگ کشمیری عوام کو غلط معلومات پہنچا کر انہیں گمراہ کرتے ہیں اور ان پر پاکستان سے غیر قانونی طور پر پیسے لینے کا الزام لگاتے تھے۔

نیٹ میں موجود اکاؤنٹس نے امریکی کارکن اور مصنف پیٹر فریڈرنک جیسی شخصیات کو بھی نشانہ بنایا جو بھارتی حکومت اور ہندوتوا کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ اس کے علاوہ جیل میں قید بھارتی صحافی فہد شاہ کو بھی نشانہ بنایا گیا، جنہوں نے بی جے پی حکومت پر تنقید کی تھی۔

مخصوص افراد کو نشانہ بنانے کے لیے کشمیر ٹریٹر کے اکاؤنٹ نے چنار کورپس کے آفیشل اکاؤنٹ کو ٹیگ کیا تاکہ اس جانب ان کی توجہ مبذول کرائی جا سکے۔

اس نیٹ ورک نے پاکستان کی حکومت کو بھی نشانہ بنایا۔ کشمیر ٹریٹر کے اکاؤنٹ سے ٹوئٹ میں لکھا گیا کہ ‘آئی ایس پی آر نے انٹرن شپ پروگرام کے ذریعے گذشتہ دہائی کے دوران 4 ہزار بااثر اعلیٰ تعلیم یافتہ وارفیئر ماہرین کے ایک حیران کُن نیٹ ورک کو بڑھاوا دیا جو آئی ایس آئی کی زیر قیادت کام کرتا ہے۔’

نیٹ ورک میں موجود درجنوں اکاؤنٹس نے سابق چنار کورپس کمانڈر کنول جیت سنگھ ڈھلوں کا ذکر کیا، نیٹ ورک نے ان کے اکاؤنٹ کو ایک ہزار سے زائد بار ری ٹوئٹ کیا ہے۔

گمراہ بیانیے کی ترویج

ان نیٹ ورکس کا بیانیہ واضح طور پر پاکستان اور چین کے مخالف تھا۔ رپورٹ میں کئی مثالوں کے ذریعے بتایا گیا کہ یہ نیٹ ورک ان تک کیسے پہنچا۔

پاکستان بالخصوص بلوچستان میں ہونے والے احتجاج کو ان نیٹ ورکس کے ذریعے سے اجاگر کیا۔ 

ایک ٹوئٹ میں کہا گیا کہ بلوچستان میں انٹرنیٹ تک رسائی نہ ہونے پر اسلام آباد میں طلبہ احتجاج کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ان اکاؤنٹس نے پاکستان پر بھارتی فوج پر مظالم کے بے بنیاد دعوے پھیلانے کا الزام لگایا۔ اکاؤنٹ کی جانب سے پاکستانی فوجیوں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور دہشت گردوں کو تحفظ دینے کا بھی الزام لگایا گیا۔

ٹوئٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے محفوظ نہیں ہے اور جب کووڈ 19 کا آغاز ہوا تھا تو پاکستان نے اپنے شہریوں کو چین میں تنہا چھوڑ دیا تھا۔

ٹوئٹ میں پاکستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بھی تنقید کی گئی، ایک معطل شدہ اکاؤنٹ نے ٹوئٹ شئیر کی جس میں کہا گیا کہ ’پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے خواتین کے لباس کو جنسی استحصال کے واقعات میں اضافے کا ذمہ ٹھہرایا جس کی وجہ سے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

رپورٹ میں چین مخالف بیانیے کے حوالے سے بتایا گیا کہ ان نیٹ ورکس نے بھارتی فوج کو چینی فوج پر غالب دکھایا اور بھارتی فوج کو چین پر فوقیت دی، نیٹ ورکس کے اکاؤنٹ میں کہا گیا کہ بھارتی فوجی بہادر ہیں جبکہ چینی فوج آسانی سے دشمن کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔

نیٹ ورک کی جانب سے بھارتی فوجیوں کو ‘بہادر اور باہمت’ کہا گیا اور چین کے ساتھ جھڑپوں میں مارے جانے والے فوجیوں کو شہید اور ہیرو کہا، نیٹ ورک کے مطابق بھارت کی جانب سے کسی بھی ناکام حملے کا ذمے دار چین کی غیر اخلاقی حکمت عملی کو ٹھہرایا گیا۔

رپورٹ کے مصنفین شیلبی گراس مین، ایمیلی تیانشی، ڈیوڈ تھیئل اور رینے ڈی ریسٹی کا کہنا تھا کہ ’ہماری رپورٹ صرف بظاہر سطح پر نظر آنے والے حقائق پر تبصرہ کیا گیا اور محققین سے مطالبہ کیا کہ وہ اس نیٹ ورک کے حوالے سے مزید حقائق کا سراغ لگائیں۔