عمران خان کو اقتدار میں جن ’لانے والوں‘ کو نواز شریف اپنا ہدف بتاتے ہیں، وہ ہرگز ان کے سیاسی حریف نہیں ہیں بلکہ نظام کے کل پرزے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ کل پرزے ازخود ان کے خلاف حرکت میں آگئے یا پھر Wheels within wheelsکی طرح وہ بھی کسی اور کے ایجنڈے پر عمل کے لئے مجبور تھے؟ہدف سے اگرنواز شریف کی مراد نظام کی اصلاح ہے تو اس کے لئے ان کی ایک گھنٹے کی تقریر میں کوئی تجویز سامنے نہیں آئی اور اگر اس سے ان کی مراد افراد کا کوئی گروہ ہے تو یہ دھینگامشتی تو گزشتہ ستر برسوں سے اس ملک میں تسلسل سے ہو رہی ہے!
نون لیگ کے حوالے سے یہ پراپیگنڈہ شدومد سے کیا جاتا ہے کہ وہ نواز شریف کے بیانئے کی زد میں آچکی ہے اورنواز شریف لچک دکھاتے تو وہ چوتھی مرتبہ بھی پاکستان کے وزیر اعظم ہوتے۔ لیکن دوسری طرف دیکھنے میں آتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے آزادی مارچ سے لے کر نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے برطرفی تک، برطرفی سے 2018کے عام انتخابات تک ااور انتخابات سے موجودہ حکومت کے دو برسوں تک نون لیگ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی رہی ہے، چودھری نثار الگ بھی ہوئے تو کوئی بہت بڑا شگاف ڈالنے میں ناکام رہے اور اب جس شین لیگ کی بات شیخ رشید کرتے ہیں وہ بھی اگر وجود میں آتی ہے تو اس کا حال بھی شیخ رشید کی پارٹی جیسا ہی ہوگا۔ چنانچہ نوا ز شریف کے بیانئے ووٹ کو عزت دو نے عوام میں پذیرائی پائی ہے اور انتخابی حلقوں کی سطح پر ان کے ووٹروں سپورٹروں نے اپنے نون لیگی نمائندوں کی نواز شریف سے وفاداری کی حفاظت کی ہے، یہی وجہ ہے نواز شریف جہاں چاہتے ہیں جلسہ لگالیتے ہیں۔
اس کے باوجود لگتا ہے کہ نواز شریف ایک مشکل بیانیہ چن چکے ہیں، اس بیانئے کی قیمت وہ اپنی اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر جیل جا کر دے چکے ہیں، یہی نہیں ان کے بھتیجے بھانجے نیب اور ایف آئی اے کی پیشیاں بھگت رہے ہیں، ان کے بھائی اپنی بیوی اور بیٹی سمیت عدالتوں میں کھڑے ہیں،ان کے دامادوں پر پرچے ہو رہے ہیں، ان کو دنوں اور گھنٹوں کے حساب سے ضمانتیں دی جا رہی ہیں، اوران کی والدہ جیلوں کے باہر ہاتھ جوڑ جوڑ اللہ سے دعائیں کرتی نظر آتی ہیں۔ ارطغرل کی طرح نواز شریف کا خاندان بھی اذیتیں سہنے کے باوجود ان کی طرف دیکھ رہا ہے۔
دیکھا جائے تو گزشتہ 35برسوں کی سیاست میں نواز شریف نے ’ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ سے ’مجھے کیوں نکالا‘اور اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینے کے تاثر سے ووٹ کو عزت دو کے بیانئے تک کا سفر کیا ہے۔ سوائے جنرل ضیاء الحق کے کسی اور سے ان کی نہیں بنی لیکن لگتا ہے کہ اگر جنرل ضیاء الحق کو بھی اللہ زندگی دیتا تو نواز شریف انہیں بھی ٹف ٹائم دیتے۔ لہٰذا نواز شریف نے اپنے بیانئے کو تبدیل نہیں کیا اور اقتدار تک آنے کے لئے بیساکھیوں کی بجائے عوام پر خرچ کیا، عوامی نمائندوں پر ’خرچ‘ کیا اور پاکستان کی سیاست میں اپنا مضبوط کلہ ٹھوک لیا۔ جبکہ ان کے سیاسی مخالفین کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ وہ بھٹو کو اووراسٹیمیٹ اور نواز شریف کو انڈر اسٹیمیٹ کرتے رہے ہیں۔
نواز شریف اپنے بیانئے کو میدان سے پردہ سیمیں پر منتقل کر چکے ہیں، ان کا پیغام ملک کے اندر باہر ہر جگہ سنا اور سمجھا جا رہا ہے اور اس سے پاکستان کے سیاسی حالات کا دنیا کو بخوبی اندازہ ہو رہا ہے۔ان کی یہ حکمت عملی بلاشبہ عالمی سطح پر ہمارے ملکی اداروں پر دباؤ کی صورت منتج ہوگی اور یہی وجہ ہے کہ ان کے خطاب کے بعد اداروں کی جانب سے وضاحت سامنے آرہی ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نواز شریف سنجیدگی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہیں اور اے پی سی سے تھوڑی جدا مگر مولانا فضل الرحمٰن اور محمود خان اچکزئی سے تھوڑا قریب اپنی سمت بناتے نظر آتے ہیں۔ حکومتی حلقوں کے پے درپے وار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ان کے خطاب کو نشر کرواکر حکومت نے غلطی کی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ایک قومی لیڈر کو ہی اداروں کو اپنی حدودوقیود یاد دلانا زیبا دیتا ہے اورنواز شریف نے یہ کام بخوبی کیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ نواز شریف ملک میں خانہ جنگی چاہتے ہیں یا یہ کہ نواز شریف تضیع اوقات کر رہے ہیں بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ نواز شریف اپنی سیاسی چال بنا رہے ہیں کیونکہ سیاست میں بہرطور ایک چال بنانا پڑتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی اس چال کو عوام کو پذیرائی ملتی ہے یا نہیں، اس حوالے سے آنے والے دنوں میں کوئی بھی عوامی سروے یقینادلچسپی سے خالی نہ ہوگا!