ایک نیوز: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستیں منظور کرتے ہوئے ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل کالعدم قرار دے دیا۔جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ نے فیصلہ سنایا،سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستیں منظور کر لیں،سپریم کورٹ نے 1-4سے فیصلہ سنایا۔
یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان، ماہرِ قانون بیرسٹر اعتزاز احسن، کرامت علی، جنید رزاق، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، حفیظ اللہ نیازی، لیفٹننٹ کرنل ریٹائرڈ انعام رحیم اور نعیم اللہ قریشی نے سویلین افراد کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستیں دائر کی تھیں۔
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بننے والے لارجر بینچ نے تین اگست تک درخواستوں کی سماعت کی تھی۔
ستمبر 2023 میں چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد پیر کو جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عاٸشہ ملک پر مشتمل اسی بینچ نے فوجی عدالتوں سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔
سماعت میں اٹارنی جنرل عثمان منصور، دراخوست گزاروں کے وکلا لطیف کھوسہ، سلمان اکرم راجہ اور سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکلا بھی شامل تھے۔
سماعت سے قبل اتوار کو ملٹری کورٹ میں مقدمات کا سامنا کرنے والے نو ملزمان نے درخواست دائر کی تھی جس میں سپریم کورٹ سے فوجی عدالتوں کو اپنی کارروائی جلد مکمل کرنے کی ہدایت دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
آج پیر کے روزسویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی،جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں5 رکنی لارجربینچ نے کی، بینچ میں جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس مظاہرنقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھے۔
سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آخری آرڈرکے مطابق اٹارنی جنرل کے دلائل چل رہے تھے، اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوجائیں پھرکیس چلانےکا طریقہ کار دیکھیں گے۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔
درخواست گزاروں نے اعتراض کیا کہ عدالتی حکم کے باوجود فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع ہو چکا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ٹرائل شروع ہونے کے معاملے کا بھی جائزہ لیں گے،اٹارنی جنرل دلائل مکمل کرلیں تو پھر دیکھیں گے آگے کیسے چلنا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ ملزمان کا ٹو ون ڈی کے تحت ٹرائل کیا جائے گا،سوال پوچھا گیا تھا کہ ملزمان پر چارج کیسے فریم ہو گا، آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں فوجداری مقدمے کے تقاضے پورے کئے جائیں گے،9مئی کے ملزمان کا ٹرائل فوجداری عدالت کی طرز پر ہوگا، فیصلے میں وجوہات دی جائیں گی شہادتیں ریکارڈ ہوں گی،آئین کے آرٹیکل 10اے کے تمام تقاضے پورے ہوں گے،ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں بھی اپیلیں آئیں گی،دلائل کے دوران عدالتی سوالات کے جوابات بھی دوں گا۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ ملزمان میں شہری اور کالعدم تنظیموں کے ممبران بھی تھے،دلائل میں مختلف عدالتی فیصلوں کے مندرجات کا حوالہ بھی دوں گا، گزشتہ سماعت کا خلاصہ دوں گا، بتاؤں گا کہ موجودہ ٹرائل کیلئے کیوں آئینی ترمیم ضروری نہیں تھی،آرٹیکل 175پر بھی بات کروں گا،21ویں آئینی ترمیم کے فیصلے کی روشنی میں بھی دلائل دوں گا۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت کو آگاہ کرو ں گا کہ 2015میں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں کیوں بنائی تھیں،عدالت کو بتاؤں گا اس وقت فوجی عدالتوں کیلئے آئینی ترمیم کیوں ضروری نہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ ماضی کی فوجی عدالتوں میں جن کا ٹرائل ہوا وہ کون تھے؟کیا 2015کے ملزمان عام شہری تھے، غیرملکی یا دہشتگرد؟
اٹارنی جنرل نے کہاکہ ملزمان میں ملکی و غیرملکی دونوں ہی شامل تھے،2015میں جن کا ٹرائل ہوا ان میں دہشتگردوں کے سہولت کار بھی شامل تھے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں دہشتگردوں کیلئے ترمیم ضروری تھی عام شہریوں کیلئے نہیں،میں آپ کے دلائل کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمڈ فورسز سے ملزمان کا ڈائریکٹ تعلق ہو تو کسی ترمیم کی ضرورت نہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ آرمی ایکٹ ارمڈ فورسز کے اندر ڈسپلن کی بات کرتا ہے۔
جسٹس مظاہر علی نقوی نے ریمارکس دیئے کہ آپ آرمی ایکٹ کا دیباچہ پڑھیں۔
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ قانون پڑھیں تو واضح ہوتا ہے یہ تو فورسز کے اندر کے لئے ہوتا ہے۔
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس کا سویلین سے تعلق کیسے دیکھائیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ افسران کو اپنے فرائض سرانجام دینے کا بھی کہتا ہے،کسی کو اپنی ڈیوٹی ادا کرنے سے روکنا بھی اس قانون میں جرم بن جاتا ہے۔
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ لیکن قانون مسلح کے اندر موجود افراد کی بھی بات کرتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ بات فورسز میں ڈسپلن کی حد تک ہو تو یہ قانون صرف مسلح افواج کے اندر کی بات کرتا ہے،جب ڈیوٹی سے روکا جائے تو پھر دیگر افراد بھی اسی قانون میں آتے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نےریمارکس دیئے کہ آپ کی تشریح جان لی جائے تو آپ کسی پر بھی یہ قانون لاگو کردیں گے؟ ایسی صورت میں بنیادی حقوق کا کیا ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ وقتی طور پر آرمڈ فورسز کے ساتھ کام کرنے والوں کی بھی بات کرتا ہے۔
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ معاملہ صرف سروس سے متعلق ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ آرمڈ فورسز ممبران کو ڈیوٹی سے روکنے والے عام شہری بھی ہوسکتے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئےکہ آئین کہتا ہے بنیادی حقوق کے خلاف کوئی قانون نہیں بنے گا۔
جسٹس اعجازالاحسن نےریمارکس دیئے کہ سویلینز آرمی ایکٹ کے دائرے میں کیسے آتے ہیں؟
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ آئین کا آرٹیکل 8 کیا کہتا ہے اٹارنی جنرل صاحب؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 8 کے مطابق بنیادی حقوق کے برخلاف قانون سازی برقرار نہیں رہ سکتی۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ آرمی ایکٹ افواج میں نظم و ضبط کے قیام کے لیے ہے،افواج کے نظم و ضبط کے لیے موجود قانون کا اطلاق سویلینز پر کیسے ہو سکتا ہے؟
جسٹس عائشہ ملک نے اٹارنی جنرل سے سوال پوچھا کہ 21ویں آئینی ترمیم کا دفاع کیسے کیا جا سکتا ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ افواج کا نظم و ضبط اندرونی جبکہ افواج کے فرائض کے انجام میں رکاوٹ ڈالنا بیرونی معاملہ ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ دہشتگردوں کیلئے ترمیم ضروری تھی عام شہریوں کیلئے نہیں؟
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ آپ اپنے دلائل کو آئین کے آرٹیکل 8(3) سے کیسے جوڑیں گے؟ آئین کے مطابق تو قانون میں آرمڈ فورسز سے تعلق ضروری ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قانون واضح ہے پھر ملزمان کا تعلق کیسے جوڑیں گے؟
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ آپکی تشریح کو مان لیا تو آپ ہر ایک کو اس میں لے آئیں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین بنیادی حقوق کو تحفظ دیتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں ہر ایسے شخص کا ٹرائل ہوسکتا جو اسکے زمرے میں آئے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جن قوانین کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ فوج کے ڈسپلن سے متعلق ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نےاستفسار کیا کہ کیا بنیادی حقوق کی فراہمی پارلیمان کی مرضی پر چھوڑی جا سکتی ہے؟ آئین بنیادی حقوق کی فراہمی کو ہر قیمت پر یقینی بناتا ہے،عام شہریوں پر آرمی کے ڈسپلن اور بنیادی حقوق معطلی کے قوانین کیسے لاگو ہوسکتے؟عدالت نے یہ دروازہ کھولا تو ٹریفک سگنل توڑنے والا بھی بنیادی حقوق سے محروم ہوجائے گا،کیا آئین کی یہ تشریح کریں کہ جب دل چاہے بنیادی حقوق معطل کر دیے جائیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو شخص ارمڈ فورسز میں ایکٹو ڈیوٹی پر ہو اس پر ایکٹ لاگو ہوتا ہے،جو ڈیوٹی پر موجود نہ ہو مگر کسی حملے سے متاثر ہو جائے تو اس کا معاملہ الگ ہے،بغیر لائسنس اسلحہ رکھنے والے کسی آرمڈ فورسز کے ممبر پر بھی یہ ایکٹ لاگو ہے،عام شہریوں پر کب آرمی ایکٹ لگے گا اس کا ٹیسٹ موجود ہے،کسی جرم میں ملزمان کا تعلق ارمڈ فورسز سے ثابت ہو تو ایکٹ لاگو ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے ایف بی علی کیس کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ برگیڈئیر ایف بی علی ریٹائرڈ ہوچکے ہیں،ایف بی علی ریٹائرڈ تھے اس لیے سیکشن 2 ون ڈی کے تحت چارج ہوئے،دیکھنا یہی ہوتا ہے کہ کیا ملزمان کا تعلق آرمڈ فورسز سے ثابت ہے یا نہیں،اس عدالت نے 21 وین آئینی ترمیم کا جائزہ لیا اور قرار دیا کہ فئیر ٹرائل کا حق متاثر نہیں ہوگا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ آپ ساری آرمڈ فوسز کے کیسز پڑھ رہے ہیں،ان کیسز کا موجودہ سے کیا تعلق ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری گزارش یہ ہے کہ ڈائریکٹ تعلق والا معاملہ موجود ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ کوٹ مارشل کو آئین تسلیم کرتا ہے۔
جسٹس یحیحی آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ مجھے اسی نقطے کی وضاحت کر دیں۔
جسٹس یحیٰی آفریدی نے سوال کیا کہ عدالت اور کورٹ مارشل میں کیا فرق ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کورٹ مارشل آرمی ایکٹ کے تحت قائم فوجی عدالت ہے، کورٹ مارشل آرٹیکل175 کے تحت نہیں لیکن ہائی کورٹ کے ماتحت ہے، ملٹری کورٹ کا فیصلہ ہائی کورٹ میں آئینی درخواست سے چیلنج ہوسکتا ہے۔
جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ آرٹیکل 10 اے کے تحت فیئر ٹرائل کا کیا ہوگا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم میں قانونی عمل کا تحفظ کیا گیا تھا، آرمی ایکٹ کا اطلاق اسی صورت ہوتا ہے جب جرم فوج سے متعلقہ ہو، آفیشل سیکرٹ ایکٹ توپی ایم ہاؤس اور دفترخارجہ پر حملے پربھی لگ سکتا ہے، آرٹیکل 175 کی بنیاد پرکورٹ مارشل کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس عدالت نے تسلیم کر رکھا ہے کہ ملٹری کورٹس آرمی ایکٹ کے تحت قائم عدالتیں ہیں،ملٹری کورٹس آئین کے ارٹیکل 175 کے تحت قائم عدالتیں نہیں لیکن 21 ویں آئینی ترمیم کیس میں عدالت ان معاملات کا جائزہ لے چکی ہے،9 مئی والے ملزمان پر تو قانونی شہادت کا اطلاق بجی کیا جا رہا ہے،ان ملزمان کا فیئر ٹرائل کا حق متاثر نہیں ہو رہا،گزارش ہے کہ عرالت سیکشن 2 ون ڈی کو وسیع تناظر میں دیکھے۔اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوگئے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو تحریری دلائل کی بھی اجازت دے دی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزارت دفاع اور داخلہ کی نمائندگی میں نے کر دی،کچھ وزارا کو نام سے فریق بنایا گیا ان کے وکیل شاہ خاور ہیں۔
عدالت نے فوج کی تحویل میں موجود ملزمان کی درخواستیں واپس کردیں، جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ فوجی تحویل میں افراد کی درخواستوں کے ساتھ بیان حلفی نہیں ہیں۔ فوجی تحویل میں 9 ملزمان کی درخواستیں واپس لے لی گئیں۔
اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو اب سنادیا گیا ہے۔